ہوم << چھوٹی ، بڑی باتیں - محمد عامر ہاشم خاکوانی

چھوٹی ، بڑی باتیں - محمد عامر ہاشم خاکوانی

11866265_1085617161465765_1795389247132538024_n دانشور اور سکالر احمد جاوید نے ایک بار کہا تھا: ”خیر کا کام کرنے کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ کوئی لمبا چوڑا اہتمام کیا جائے، چھوٹے چھوٹے کاموں سے نیکی اور خیر آگے منتقل ہوسکتی ہے۔ آدمی سیکھنا چاہے تو اپنے آس پاس سے اس طرح کی بہت سی چیزیں سیکھ سکتا ہے ۔ ہم نے خیر کی کئی باتیں اپنے ساتھ سفر کرنے والے مسافروں سے سیکھیں “۔
بات خوبصورت ہے، واقعی ہمیں کئی بار ایسے تجربات اور مشاہدات سے گزرنا پڑتا ہے کہ اگر ان پر غور کیا جائے، پلے باندھ لیے جائیں تو زندگی بھرکام دیتے ہیں۔ چھوٹی نظر آنے والی بات بھی ایسے میںآگے جا کر بڑی بن جاتی ہے۔ مواعظ حضرت اشرف علی تھانوی میں یا کہیں اور پڑھا تھا کہ لکھنو میں ایک حجام کو ہر ایک کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کی عادت تھی۔ وہ اپنا اوزاروں والا بکسہ اٹھائے شہر بھر گھومتا رہتا۔ کسی نے بالوں کی کٹنگ کرائی، کسی نے ڈاڑھی کا خط بنوایا، جہاں کہیں حجام کو معلوم ہوتا کہ کسی کا نماز جنازہ ہونے والا ہے، وہ اپنا بکسہ کسی دکان پر رکھواتا اور اس کے جنازے میں شرکت کے لئے پہنچ جاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اسے کئی میل پیدل چل کر شہر کے کسی کونے میں نماز جنازہ پڑھنے جانا پڑتا۔ اس نے کبھی اسے زحمت نہیں سمجھا اور پورے خلوص دل کے ساتھ شریک ہوتا۔ کہتے ہیں کسی دکاندار نے اس سے پوچھا کہ تم مرحوم کو جانتے تک نہیں، اس قدر ذوق و شوق سے جنازہ پڑھنے کیوں جا رہے ہو، یہ فرض کفایہ ہے، ہر ایک کے لئے لازمی نہیں کہ جنازہ پڑھے۔ حجام کا جواب تھا، میں اس لئے بھی شریک ہوتا ہوں کہ کیا خبر رب تعالیٰ میرے جنازہ میں بھی برکت عطا کریں اور ایسے لوگ شریک ہوجائیں جن کی دعاﺅں سے میری مغفرت ہو جائے۔
کچھ عرصے بعد لکھنو کے سب سے ممتاز اور قابل احترام عالم دین (مولانا فرنگی محلی) انتقال کر گئے۔ ان کے جنازے میں بہت بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ شہر کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ مولانا کا جنازہ پڑھایا گیا تو اس کے فوراً بعد اعلان ہوا، حضرات جائیے نہیں، ایک اور جنازہ آ گیا ہے، اس کی نماز ہونے لگی ہے۔ نماز جنازہ پڑھائی گئی۔ مولانا فرنگی محلی کے جناز ے کے لوگ مسلسل آ رہے تھے، کچھ ان کے جناز ے میں شامل نہیں ہوسکے تھے، بھاگم بھاگ وہ اس دوسری نمازجنازہ میں شریک ہوگئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اسی حجام کی نماز جنازہ تھی۔ اللہ نے اس کے ایک عمل کو قبول کیا اور اس کی خواہش کا مان رکھا کہ اس کا جنازہ مولانا فرنگی محلی سے بھی بڑا ہوگیا۔
چند دن پہلے فیس بک ان باکس میں ایک دوست نے دلچسپ چیز شیئر کی۔ کہا: ”میں یکم جنوری یا یکم محرم کو نئے سال کا عہد نہیں کرتا، اس حوالے سے رمضان کو منتخب کر رکھا ہے۔ نیو ایئر ریزولوشن اسی میں طے کرتا ہوں، میرے حساب سے سال رمضان سے شروع ہوتا اور شعبان کے آخری دن ختم ہوتا ہے۔ رمضان میں عہد کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی فوری شروع کر دیتا ہوں۔ تیس دن عمل کرنے سے عادت سی ہوجاتی ہے، جسے بعد میں مستقل چلانا آسان ہوجاتا ہے۔ ہر سال اپنے اندر ایک مثبت عادت ڈالنے کا عہد کرتا ہوں اور ایک منفی عادت ختم کرنے کی کمٹمنٹ کرتا ہوں۔ رمضان کی برکت سے میر ے عہد آسانی سے ٹوٹتے نہیں“۔ یہ بات پہلی بار سنی تھی، اچھی لگی۔ واقعی رمضان کو ایک پیمانہ بنا لیا جائے تو ایک طرح سے یہ نئے سال کا آغاز ہی ہوتا ہے۔ ہم لوگ عام طور پر یکم جنوری کو نیو ایئر ریزولوشن بناتے ہیں۔ ایسی منفی عادات جن کو چھوڑنا چاہ رہے ہیں، ایسی صحت مند باتیں جو زندگی کا حصہ ہونی چاہئیں، نماز کی پابندی، مطالعے کی عادت، سگریٹ نوشی سے جان چھڑانا، وغیرہ وغیرہ.... ان کی کمٹمنٹ کی جاتی ہے۔ نیو ایئر پر ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دی جاتی ہے، بعض دوست اصرار کرتے ہیں کہ یکم محرم کو نیا سال تصور کیا جائے، مگر محرم میں ایک خاص انداز کے حزن کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ رمضان کی مبارک باد مگر ایک دوسرے کو دینا اچھا لگتا ہے ۔خیر یہ نیو ایئر کی بحث میں پڑے بغیر اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی رمضان کی روحانی قوت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اندر مثبت چیزیں پیدا اور منفی سے جان چھڑا سکتا ہے تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے! اسے شیئر اس لئے کر رہا ہوں کہ ممکن ہے کوئی اور بھی اس سے تحریک لینا چاہے۔
کئی سال پہلے ہوسٹل میں ایک دوست کے عزیز نے گپ شپ میں ایسی بات بتائی کہ وہاں بیٹھے سب لوگ سحر زدہ ہو گئے ۔ ہاسٹلز میں عام رواج ہے کہ کسی ایک لڑکے کے کمرے میں دو چار دوست اکٹھے ہوگئے اور گھنٹوں گپ شپ چلتی رہی۔ وہیں ایک صاحب نے جو کسی لڑکے کے مہمان تھے، بتایا کہ میں ہرسال رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی اپنی عیدیاں بانٹ دیتا ہوں۔ محفل میں حیرت کے آثار دیکھ کر آرام سے بولے: ”دیکھیں عیدی دینے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ وہ کسی کے کام آ سکے۔ اپنی ماہانہ آمدنی سے ایک خاص تناسب سے رقم الگ کرلیتا ہوں، عید سے آٹھ دس دن پہلے اپنی بہنوں، بھانجیوں، بھتیجیوں کے گھر جا کر ہر ایک کو عیدی کا لفافہ دے دیتا ہوں۔ اپنے ان قریبی رشتے داروں میں جو نسبتاً کم وسیلہ ہیں، ان کا حصہ زیادہ رکھ لیا جاتا ہے۔اسی طرح بچوں کے لئے الگ لفافے بنا رکھے ہیں، خاندان میں بعض گھر ایسے ہیں جنہیں اس کی ضرورت ہے، ان کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے ۔دو تین ہزار بھی ان کے کسی نہ کسی کام تو آ جاتے ہوں گے ۔ اس رمضانی عیدی کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی انکار نہیں کرتا، ورنہ ویسے عید کے لئے مدد کرنا چاہوں توکئی عزیز لینے سے انکار کر دیتے ہیں، عیدی سے کون منع کر سکتا ہے؟ عید والے دن عیدی کے بجائے پھل، کیک وغیرہ لے جاتا ہوں“۔
یہ بات سن کر ہم سب حیران رہ گئے۔ ایک دوست نے پوچھا کہ طریقہ تو آپ کا بہت ہی خوب ہے، مگر یہ کہاں سے سیکھا؟ یہ سن کر مسکرائے اور بولے کہ ایک دوست سے، جس نے مجھے شادی پر بر وقت سلامی دے کر یہ نکتہ سکھایا۔ پھر بولے کہ میری شادی ہونے والی تھی، اخراجات توقع سے کچھ زیادہ ہو رہے تھے، وسائل کم تھے، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیاکریں۔ دفتر سے چھٹیاں لے چکا تھا۔ ایک روز میرے دفتر کے ایک کولیگ اور محترم دوست گھر آئے۔ انہوں نے کئی سال باہر گزارے تھے اور ایک خاص قسم کا قرینہ ان کی زندگی میں تھا۔ مجھے گھر سے باہر بلایا اور ایک موٹا سا لفافہ کوٹ کی اندر والی جیب سے نکالا اور مجھے پکڑا دیا، کہنے لگے کہ یہ آپ کی شادی کی سلامی ہے۔ حیرت سے میں نے انہیں کہا، مرزا صاحب شادی تو ایک ہفتے بعد ہے، نکاح والے دن آپ سلامی بھی دے دیجئے گا۔ انہوں نے خاموشی سے وہ لفافہ میرے ہاتھ میں تھمایا اور بولے، بھائی میں سلامی شادی سے پہلے دینے کا قائل ہوں۔ اس کی افادیت بھی پہلے ہی ہے، بعد کا تو تکلف ہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلتے بنے، گھر جا کر میں نے لفافہ کھولا تو اس کے اندر معقول رقم موجود تھی، اتنی معقول کہ مجھے کسی اور سے قرض مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، مشکل رفع ہوگئی “۔ وہ صاحب کہنے لگے، ”شادی کی سلامی والی بات سمجھ بھی آ گئی اور اس کا قائل بھی ہو گیا۔ بعد میں ایک دن خیال آیا کہ عید کے اصل اخراجات تو عید سے پہلے ہونے ہیں۔ عید والے دن اگرکسی کو ٹھیک ٹھاک عید بھی مل جائے ، تب بھی وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ بات سمجھ آگئی تو پھرجسے عیدی دینی ہو، اسے عید سے پانچ سا ت روز پہلے دے دیتا ہوں، تاخیر ہوجائے تو چاند رات سے ایک دو دن پہلے لازمی دے آتا ہوں کہ ممکن ہے کسی کی عید تیاری میں کوئی کسر باقی ہو،نیا جوتا نہ لے سکا ہو، کچھ اور چیزیں ناکافی ہوں تو ممکن ہے میری عیدی وہ مسئلہ حل کر دے “۔ بات خوبصورت تھی، روح تک سرشار ہوگئی، اس وقت عہد کیا کہ قدرت نے مہلت دی تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ بعد میں پھر چیزیں بھول بھال جاتی ہیں، ایک دوسر ے کو مگر یاد دلاتے رہنا چاہیے ، کیا خبر کوئی چھوٹی سی بات ، کس کے حق میں بڑی بات ثابت ہو۔

Comments

محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی

Click here to post a comment