یہ بڑا خوبصورت منظر تھا، چاروں طرف کھیت تھے، ہریالی تھی، کھیتوں میں اگی سرسبز فصلیں تھیں، چاول کے پودے ابھی جڑ پکڑ رہے تھے، جامن کے درخت تھے اور بچے جامن کے درختوں کے نیچے جمع تھے۔ سرسبز کھیتوں میں دور کہیں بھیڑیں چرتی دکھائی دیتی تھیں، دور افق کے پاس گائیں اور بھینسیں بھی چر رہی تھیں، جگہ جگہ ٹیوب ویل چل رہے تھے، کہیں کوئی الھڑ مٹیار سر پر روٹیوں کی چنگیر اٹھائے بغل میں لسی کا مٹکا دبائے خراماں خراماں کھیتوں کی طرف چلتی دکھائی دیتی تھی۔ بچے ڈھور ڈنگروں کے پیچھے بھاگتے چلے جاتے تھے، خواتین گھروں کا کام کاج سمیٹ کر تنگ پگڈنڈیوں پر چلتی کھیتوں کی طرف رواں دواں تھیں، اسکولوں سے چھٹیاں تھیں، اکثر بچے باہر گلیوں میں گھومتے اور کھیلتے دکھائی دیتے تھے۔ یہ سنٹرل پنجاب کا ایک خوبصورت گاؤں تھا، پنجاب کے اکثر دیہاتوں میں عموما یہ منظر پایا جاتا ہے لیکن اس گاؤں کی خوبصورتی کچھ سوا تھی۔ یہ سچ ہے کہ غلام قوموں کے معیار بدل جاتے ہیں، غلام قومیں اپنی تہذیب اور ثقافت کو ہمیشہ فاتح اقوام کی نظر سے دیکھتی ہیں، جو تہذیب غالب ہو اسی کا سکہ چلتا ہے، دنیا ہمیشہ غالب تہذیب کے آئینے سے دیکھی جاتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر یہی منظر کسی مغربی ملک کا ہوتا تو ہمارے سفرنامہ نگار تعریفوں کے پل باندھ دیتے اور اسے جنت کا ٹکڑا ڈکلیئر کر دیتے۔ آپ دیکھ لیں ہمارے شمالی علاقہ جات، گلگت، سوات، چترال، مری، ایبٹ آباد، بالا کوٹ اور کشمیر دنیا کے حسین ترین علاقے ہیں لیکن ہم اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار ہیں نہ ہمارے سفرنامہ نگار۔ ہمارے سفر نامہ نگاروں کو یورپ کے صحرا ان جنت نظیر وادیوں سے زیادہ خوبصورت دکھائی دیتے ہیں، یہ سب کیا ہے؟ یہ ہمارے تہذیبی زوال اور ہماری شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی ہے۔
میں کچھ دن پہلے اس گاؤں گیا تھا، اس گاؤں کے ایک بزرگ آس پاس کے علاقوں میں مشہور تھے. میں نے وقت کو غنیمت جانا اورشام کے وقت اس گاؤں چلا گیا۔ ہم انسان بھی کتنے عجیب ہیں، ز ندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے وقت کے غلام بن جاتے ہیں، عزت، دولت اور شہرت کے حصول کے لیے اپنے والدین، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کو بھلا دیتے ہیں، ہمارے ذہن پر صرف ایک ہی دھن سوار ہوتی ہے کہ مجھے صرف کامیاب ہو نا ہے، ہم ساری زندگی کامیابی کے پیچھے دوڑتے ہیں اور جب کامیابی ملتی ہے تو ہمارے اپنے ہم سے روٹھ جاتے ہیں۔ والدین وفات پا جاتے ہیں، بہن بھائی شادی کے بعد الگ گھروں میں جا بستے ہیں اور دوست رشتہ دار اجنبی بن جاتے ہیں اور یوں ہمارے پاس صرف خالی خولی عزت، دولت اور شہرت رہ جاتی ہے اور ہم اپنی بقیہ زندگی دولت اور شہرت کی بلند دیواروں کے پیچھے گزار دیتے ہیں۔ ہمیں کامیابی کے لیے محنت کرنی چاہیے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری یہ کامیابی، یہ دولت اور شہرت ہمارے سارے رشتوں کو ہڑپ کر جائے۔ خوش قسمت ہیں وہ انسان جو اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
میں گاؤں پہنچا، وہ بزرگ گاؤں سے بالکل الگ کھیتوں میں رہائش پذیر تھے، کچی اینٹوں کا ایک چھوٹا سا مکان تھا، آگے چھوٹا سا صحن، ایک طرف نلکاتھا دوسری طرف مٹی کا ایک چولہا بنا ہوا تھا، صحن کھلا تھا، کوئی دروازہ نہ چار دیواری، مکان کے اردگرد کھیت تھے، کھیتوں میں سبزہ تھا، جانور سبزہ چر رہے تھے، مکان کی پچھلی طرف گھنے درخت تھے، درختوں پر بیٹھے پرندے اللہ کی حمد میں ترانہ ریز تھے، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو تھی اور دور کہیں کھیتوں میں کسان اپنے کام کاج میں مشغول تھے۔ یہ پورا منظر کسی ماہر مصور کی خوبصورت پینٹنگ کا عکس دکھائی دیتا تھا. میں چار پائی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا، وہ بزرگ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بہت جلد ہماری گفتگو بےتکلفی کی حد تک چلی گئی. میں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’میں نے زندگی میں پہلی بار کھیتوں میں ایک بزرگ دیکھا ہے‘‘ وہ تھوڑا سا ہنسے اور آہستہ سے بولے ’’بیٹا میں کوئی بزرگ نہیں ہوں شاید لوگوں کا وہم ہے یا واقعی اللہ نے میرے عیبوں پر پردہ ڈال رکھا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’ تو پھر بزرگ کیسے ہوتے ہیں؟‘‘ انہوں نے انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا، دور کھیتوں میں ایک بوڑھا کسان کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا، اس کے سر اور ڈاڑھی کے بال سفید دکھائی دے رہے تھے، وہ بولے ’’یہ ہے اصل بزرگ.‘‘
میں نے سوالیہ انداز میں ان کی طرف دیکھا تو وہ بولے’’اس کسان اور مزدور سے بڑا بزرگ کون ہو سکتا ہے جو سارا دن محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے، سارا دن محنت کر کے حلال روزی کماتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنا نماز روزہ بھی کرتا ہے۔ اصل بزرگ یہ ہے، اللہ اس کے سفید بالوں کی حیا کرتا ہے، ایک کسان اور مزدور دن بھر کا تھکا ہارا جب رات کو اللہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے ہم سوچ بھی نہیں سکتے اللہ اس سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بزرگ صرف مسجد، مدرسے اور خانقاہ میں پائے جاتے ہیں، یقینا پائے جاتے ہیں لیکن وہ محنت کش مزدور جو سارا دن ہل چلاتا ہے، پھل اور سبزی کی ریڑھی لگاتا ہے، محنت مزدوری کرتا ہے، مستری کے پیچھے اینٹیں ڈھوتا ہے، ریلوے اسٹیشن اور ائیرپورٹ پر قلی بن کر لوگوں کا سامان اٹھاتا ہے، کسی دفتر، فیکٹری یا مل میں کام کرتا ہے، کھیتوں میں بھیڑ بکریاں چرا کر اپنا پیٹ پالتا ہے یاسارا دن پھیری لگاکر رزق حلال کماتا ہے، ان سب سے بڑ ا بزرگ اور کون ہو سکتا ہے۔ ہاتھ کی محنت سے کمانے والوں کو اللہ نے اپنا حبیب اور دوست کہا ہے۔ ہم نے زندگی میں جہاں اور بہت سی مایوسیاں پھیلائی ہیں وہاں ہم نے یہ تصور بھی عام کر دیا ہے کہ بزرگ صرف وہی ہوتا ہے جو ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہے۔ یقینا یہ اچھا عمل ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس کے علاوہ اللہ کو اور کہیں نہیں پا سکتے، اللہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے اور جو سچی طلب کے ساتھ اسے تلاش کرے وہ اسے کھیتوں، گلیوں اور بازاروں میں بھی مل جاتا ہے۔ ‘‘
وہ رکے تو میں نے مزید سننے کی فرمائش کی، وہ بولے ’’اپنے آخری وقت کے لیے دعا کیا کرو، اوپر والا بڑا بے نیاز ہے، چاہے تو آخری وقت میں ہم سے کلمہ چھین لے، کبھی اپنے اعمال پر تکبر مت کرو، ہمیشہ ایمان کی موت مانگو، نیکی پر تکبر نہ کرو، گناہ کو چھوٹا نہ سمجھو، کسی کو حقیر مت جانو اور خود کو اونچا نہ سمجھو۔ موت کی سختی سے پناہ مانگو، موت بڑی تلخ حقیقت ہے، جان نکلنے کا عمل بڑا خوفنا ک ہے، جب روح بدن سے نکلتی ہے تو یہ مشکل ترین گھڑی ہوتی ہے۔ اللہ سے ایسی موت مانگو جیسے مکھن سے بال کو نکال لیا جاتا ہے، انسان کی بخشش اور عذاب کا فیصلہ اس کی موت ہی کر دیتی ہے. جس کی موت اچھی آئی اس کا اگلا سفر بھی آسان ہوگا.‘‘
انہوں نے بات ختم کی، میں نے سلام کیا اور واپس آ گیا۔ مجھے زندگی میں آج پہلی بار معلوم ہوا تھا کہ دنیا کا ہر مسلمان بزرگ ہوتا ہے خواہ وہ سامان اٹھانے والا قلی، ریڑھی لگانے والا مزدور، رکشہ چلانے والا ڈرائیور اور کھیتوں میں کام کرنے والا کسان ہی کیوں نہ ہو۔
تبصرہ لکھیے