ہوم << بچوں کے نگہبان بنیے، فیملی کی حفاظت (3) - محمد اشفاق

بچوں کے نگہبان بنیے، فیملی کی حفاظت (3) - محمد اشفاق

محمد اشفاق اسے بدقسمتی کہیے یا ہمارے اعمال کا پھل، ہمارا معاشرہ بچوں کےلیے کوئی آئیڈیل معاشرہ نہیں کہا جا سکتا. ریاست کی اپنے بچوں کی تعلیم، صحت، ماں اور بچے کی نگہداشت، صحتمند تفریح اور کھیلوں کے مواقع پہ سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے. ایسے میں اپنے بچوں کی ممکنہ حد تک یا یوں کہہ لیجیے کہ حسبِ استطاعت بہترین پرورش کی ذمہ داری ساری کی ساری والدین کے کندھوں پہ آ جاتی ہے. بچوں کے تحفظ کا بوجھ بھی آپ نے خود ہی اٹھانا ہے، اس لیے علم ہونا چاہیے کہ آپ انہیں ایک محفوظ ماحول دینے کےلیے کیا کچھ کر سکتے ہیں.
’’متوقع خطرات‘‘
یہ بہت مبہم سا عنوان ہے، بچوں کو بلکہ بڑوں کو بھی لاحق خطرات کی ہزارہا اقسام ہو سکتی ہیں. مگر اپنی آسانی کی خاطر ہم یہاں انہیں چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.
گھریلو حادثات
بیرونی حادثات
جسمانی، ذہنی یا جنسی تشدد
اغوا
’’گھریلو حادثات‘‘
زیادہ تر ڈیڑھ دو سال سے نو دس سال کی عمر کے بچے ان حادثات کا نشانہ بنتے ہیں. اگر آپ نے اس مضمون کی پہلی قسط پڑھ کر اس پہ عمل کر رکھا ہے تو امید ہے کہ آپ کا گھر بچوں کے لیے بہت حد تک محفوظ ہوگا. ایک سے پانچ سال کی عمر تک کے بچے دنیا کو خود دریافت کر رہے ہوتے ہیں. اس لیے وہ اپنی حسیات کا بھرپور استعمال کرتے ہیں. ہر چیز کو چھو کر، سونگھ کر، چکھ کر دیکھنا ان کے سیکھنے کے عمل کا حصہ ہے. اس میں رکاوٹ مت بنیے، بس اتنا دھیان رہے کہ نوکیلی، کھردری، وزنی اشیاء سے وہ بچے رہیں. کوئی مضر چیز نگلنے نہ پائیں. اس کے لیے ماؤں یا دیگر بڑوں کو بچوں پہ کڑی نگاہ رکھنا پڑتی ہے. خدانخواستہ کسی حادثے کی صورت میں فرسٹ ایڈ کٹ جس کا ذکر پہلے مضمون میں آیا، استعمال کیجیے اور فوری ڈاکٹر سے رجوع کیجیے. بہتر یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سے فون پہ رابطہ کر کے ان سے ہدایات لے لی جائیں خصوصا اس صورت میں جب بچے نے خدانخواستہ کوئی زہریلی چیز نگل لی ہو. بعض اوقات قے کروانے کے لیے جو گھریلو ٹوٹکے استعمال کیے جاتے ہیں وہ زیادہ نقصان کا سبب بنتے ہیں.
پانچ تا دس سال کے بچے زیادہ تر کھیل کود یا جسمانی شرارتوں میں زخمی ہوتے ہیں. یہ ان کے سیکھنے اور مضبوط ہونے کا عمل ہے، ان کی حوصلہ شکنی مت کیجیے، نگرانی میں البتہ کوتاہی نہیں ہونی چاہیے.
’’بیرونی حادثات‘‘
گھر سے باہر جہاں بچے ٹریفک حادثات کی زد میں ہوتے ہیں، وہاں کھیل کے میدان یا سکول میں ہونے والے حادثات بھی انہیں متاثر کر سکتے ہیں. بچوں کی سکول وین کا ڈرائیور ذمہ دار شخص ہونا چاہیے. کم عمر ڈرائیوروں سے بچیے. اس مد میں مزید احتیاطی تدابیر آگے آئیں گی. اطمینان کر لیجیے کہ بچوں کے سکول میں کھیل کود فزیکل انسٹرکٹر کی نگرانی میں ہوتی ہیں. سکول میں فرسٹ ایڈ باکس موجود رہتا ہے. سکول انتظامیہ کے پاس آپ کا اور آپ کے پاس ان کا نمبر موجود ہے.
بچوں کے ساتھ شاپنگ یا تفریح پہ جاتے ہوئے گاڑی انتہائی محتاط ہو کر چلائیں. چھوٹے بچوں کو کسی صورت فرنٹ سیٹ پہ مت بٹھائیں. نہ صرف خود غلطی کرنے سے بچیں بلکہ دوسروں کی غلطیوں سے بھی خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں. ٹریفک قوانین کی پابندی کریں. جو نسل آج سڑکوں پہ گاڑی چلا رہی ہے اگر اس کے ماں باپ کو ٹریفک سینس ہوتی تو آج ہماری سڑکیں اتنی غیرمحفوظ نہ ہوتیں.
پیدل چلتے ہوئے بچوں کو سڑک والی طرف مت چلنے دیں. روڈ کے درمیان دوڑنے بھاگنے کو ان کی عادت مت بننے دیجیے. انہیں چلتی یا رکی ہوئی گاڑیوں کو چھونے سے بھی منع کیجیے. پبلک ٹرانسپورٹ پہ سفر کرنا پڑے تو جہاں تک ممکن ہو، بہتر سروس استعمال کیجیے.
’’جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد‘‘
بچوں پہ جسمانی اور ذہنی تشدد سب سے زیادہ والدین اور اساتذہ کی جانب سے کیا جاتا ہے، خود کو سدھار لیجیے. دنیا بھر میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تشدد صرف نفرت کو جنم دیتا ہے، یہ سیکھنے کے عمل میں کسی بھی طرح معاون نہیں ہوتا. بچوں کو تمیز سکھانی ہے تو خود تمیزدار بنیے. انہیں دیندار بنانا ہے تو پہلے خود تو بن جائیے. انہیں ذمہ دار دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنی ذمہ داریاں نبھائیے. اپنے دیگر رشتہ داروں یعنی والدین، بہن بھائیوں وغیرہ کی اپنے عمل سے حوصلہ شکنی کیجیے کہ وہ آپ کے یا اپنے بچوں پہ تشدد نہ کریں. بچوں پہ سختی بسا اوقات ضروری ہو جاتی ہے لیکن ریڈ لائن کبھی عبور مت کریں. ذہنی تشدد میں بلاوجہ کی ڈانٹ ڈپٹ، لعن طعن، تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے دباؤ میں رکھنا، یہ سب والدین کی جانب سے ہوتا ہے اور بچے کی شخصیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتا ہے. یقینی بنائیں کہ بچوں کو سکول میں جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جاتا، مگر اتنا کافی نہیں. یہ بھی یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے کو تضحیک اور تمسخر کا نشانہ نہ بنایا جاتا ہو، خصوصا کسی جسمانی یا ظاہری خامی کی وجہ سے. اس کا طریقہ یہی ہے کہ بچوں کو اتنا اعتماد دیں کہ وہ باہر کی ہر بات آپ کو بتاتے ہوں. اگر بچہ اچانک سکول جانے سے گھبرانے لگے، سکول سے واپس آ کر خاموش رہے تو اسے سیریس لیجیے. اس کی بات پہ بھروسہ کریں لیکن ساتھ ہی اس کی تصدیق کرنا مت بھولیں.
بچوں پہ جنسی تشدد ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سوچ کر ہی دل ڈوب سا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس پہ بات کرنے سے عموما گریز کیا جاتا ہے، لیکن ہم کتنا ہی گریز کیوں نہ کریں یہ لعنت اتنی عام ہے کہ ملک کے کچھ علاقوں میں تو اسے بالکل نارمل سا سمجھا جاتا ہے. بچیوں کی نسبت بچے اس کا زیادہ نشانہ بنتے ہیں، اور خوفناک بات یہ کہ مجرم زیادہ تر بچے کے قریبی رشتے دار ہوتے ہیں. پاکستان میں ’’ساحل‘‘ نامی ایک این جی او نے اس گھمبیر اور خوفناک مسئلے پہ نہ صرف بہت کارآمد تحقیقات کر رکھی ہیں بلکہ اس سلسلے میں والدین کو آگاہی فراہم کرنے کےلیے ان سے آپ کو بہت سی مفید معلومات بھی مل سکتی ہیں. ’ساحل‘ کی ویب سائٹ وزٹ کیجیے، فون نمبر لے کر ان سے معلومات حاصل کیجیے، ویب پہ بچوں کی اس حوالے سے تربیت، والدین کو آگاہی مہیا کرنے اور حفاظتی تدابیر وغیرہ پہ بہت سا قیمتی مواد موجود ہے، اس سے استفادہ کیجیے.
گزشتہ دنوں ہمسایہ ملک کے اداکار عامر خان کی ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی, جس میں وہ بچوں کو اس حوالے سے بہت سی مفید باتیں سمجھا رہے تھے، اسے ضرور دیکھیے. اس مسئلے کو نظرانداز بالکل مت کیجیے. یہاں ایک بار پھر بچے کی بہتری کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ آپ سے کس حد تک بلاجھجک اپنا ہر مسئلہ اور ہر الجھن بیان کر سکتا ہے. اس کے لیے آپ کو اپنا بہت سا قیمتی وقت بچوں کو دینا ہوگا، اپنی بہت سی مصروفیات ترک کرنا ہوں گی. محض بچوں کو جنم دے کر جنت نہیں کمائی جاسکتی. اپنی ذمہ داری کو سمجھیے. بچہ خدا کو نہیں جانتا، اس کے سب کچھ آپ ہیں، اس کا خدا سے، شیطان سے اور دنیا سے تعارف آپ ہی کے توسط سے ہونا ہے. یہ بات یقینی بنائیں کہ اسے آپ میں ایک اچھی دنیا دکھائی دے. اسے جہاں برائی دکھائی دے گی، وہ اسے بھی آپ سے شئیر کرے گا، ایسے میں اسے دھمکانے کی، ڈانٹنے کی یا اس کی حوصلہ شکنی کی ہر کوشش اسے آپ سے کچھ دور اور بدی سے کچھ قریب کر دے گی.
’’اغوا‘‘
ان دنوں پورا ملک میڈیا اور سوشل میڈیا کے غیرذمہ دارانہ رویہ کی بنا پہ جن افواہوں کی زد میں ہے، ان سے قطع نظر بہرحال جرائم پیشہ عناصر نہ صرف ہمارے اردگرد موجود ہیں، بلکہ اکثر بغیر قانون کے کسی ڈر کے پھل پھول بھی رہے ہیں، اس لیے بہرحال بچوں کا اغوا ایک حقیقت ہے.
اپنے بچوں کو سکول سے لانے اور لے جانے کے لیے جو سکول وین لگوائیں، اس کے ڈرائیور کو آپ اچھی طرح جانتے ہوں، اس کا پتہ آپ کے پاس محفوظ ہونا چاہیے. اسے کبھی لاپرواہی مت برتنے دیں، کبھی نیا ڈرائیور وین میں دیکھیں تو مکمل تسلی کر لیں. سکول کے گارڈز اور عملے سے دوستانہ تعلقات رکھیے، وہ آپ کے بچے کا خصوصی خیال رکھیں گے، مگر انہیں بھی بچوں سے ایک حد سے زیادہ بے تکلف مت ہونے دیں. بچوں کو والد، والدہ، چچا یا ماموں کے نام، نمبرز، اپنے گھر کا پتہ وغیرہ یاد کروائیں. اگر آپ گارڈ افورڈ کر سکتے ہیں تو بچوں کو سکول، شاپنگ یا تفریح وغیرہ پہ گارڈ کے ساتھ بھیجیں. خود یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں تو سب سے بہتر. کم عمری ہی سے بچوں کو اجنبیوں سے برتاؤ کی تربیت دیں، انہیں اعتماد دیجیے. ان سے کھیل کھیل میں مختلف خطرناک سچویشنز ڈسکس کیجیے، انہیں سکھائیں کہ خطرے کی صورت انہیں کیا کرنا چاہیے. مارشل آرٹس نہ صرف بچوں کو جسمانی طور پہ مضبوط بناتے ہیں بلکہ انہیں ذہنی طور پہ بھی چوکس اور مضبوط رکھتے ہیں. بچوں اور بچیوں دونوں کو ان کی تربیت دیجیے.
ان سب باتوں سے زیادہ اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ اپنے بچوں کے لیے پروٹیکٹو ہوں لیکن اوور پروٹیکٹو ہرگز مت ہوں. انہیں اپنا بچپن بھرپور طریقے سے گزارنے دیجیے. یہ مضمون آپ کو خوفزدہ کرنے اور آپ کے بچوں کو چاردیواری میں مقید کرنے کی نیت سے نہیں لکھا گیا. بچوں کو اپنی زندگی جینے دیں، وہ گریں گے، پھسلیں گے، چوٹ کھائیں گے اور جینا سیکھیں گے. بس اپنی دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنے عمل سے بھی یقینی بنائیں کہ انہیں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچے. اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.
اس سلسلے کی اگلی قسط آخری ہوگی جس میں کوشش ہوگی کہ پبلک مقامات پہ اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت اور سیلف ڈیفنس کے چند بنیادی اصولوں سے متعلق آپ کو آگاہی دی جائے. ان شاءاللہ
پہلی قسط یہاں ملاحظہ کیجیے
دوسری قسط یہاں ملاحظہ کیجیے

Comments

Click here to post a comment