ہوم << ہمیں تو مرنا ہے - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

ہمیں تو مرنا ہے - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

عاصم اللہ بخش الطاف حسین کی ایک ریکارڈنگ سننے کا اتفاق ہوا (کاش کہ نہ سنی ہوتی)، جس میں ان کے کاسہ لیس بہت شدومد سے انہیں باور کروا رہے ہیں کہ وہ تو ’’حسین‘‘ ہیں۔ معاذ اللہ۔
ایک اندازہ تو یہ ہوا کہ ان کے گرد اس وقت دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جنہیں اپنی جان کا خوف ہے اور وہ کسی بھی حد تک خوشامد کرنے پر آمادہ ہیں۔ دوسرے وہ، جنہیں خدا کا خوف بھی نہیں ہے، اور وہ اپنے مقاصد کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے افراد نہایت خطرناک ہوتے ہیں، خود تو مرتے ہی ہیں لیکن اپنے ممدوح کو بھی تباہ کر کے چھوڑتے ہیں۔ ایک نے بولنا نہیں ہوتا ، جو بھی حکم ہو جائے سر تسلیم خم، اور دوسرے کا مفاد یہ ہوتا ہے کہ ایسا بولا جائے کہ گھناؤنے سے گھناؤنے کام کی راہ ہموار ہو تاکہ ’’گلشن کا کاروبار چلے‘‘۔ یہ دونوں قسم کے حواری کچھ بھی ایسا کروانے کا باعث ہو سکتے ہیں جس سے بے گناہ اور معصوم لوگوں کی جان اور مال داؤ پر لگ جاتا ہے۔ لگ رہا ہے کراچی میں اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
بہرحال
میرا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ الطاف حسین صاحب پر جو بھی ذہنی یا دیگر دباؤ ہے اسے بنیاد بنا کر ہمارے عقیدہ اور عقیدتوں سے کھیلنے کی راہ مت نکالی جائے۔ الطاف صاحب خود کو دیکھیں اور حضرت امام حسین (رض) کو دیکھیں۔ کس برتےپر اتنا بڑا طومار باندھنے کی جرات کی گئی؟ کل کو یہ مشٹنڈے آپ کو خدا قرار دے دیں تو آپ کو خدا مان لیا جائے؟ معاذ اللہ۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو نہ تو مرنا ہے اور نہ ہی خدا کو جواب دینا ہے۔ ہم نے مرنا بھی ہے اور خدا کو اس بات کا جواب بھی دینا ہے کہ جب آپ ’’ذہنی دباؤ‘‘ میں اس قسم کی گفتگو فرما رہے تھے تو ہم پر کیا دباؤ تھا جو ہم چپ بیٹھے رہے۔
تو جناب! امریکہ ، انڈیا، اسرائیل چھوڑ، جس مرضی اور کو بھی بلا لیجیے اپنی حمایت کے لیے، لیکن آئندہ اس قسم کی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کسی صورت نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کے خلاف جو آپ نے کہا وہ ملک اور قوم کے لیے ہی سب نے برداشت کر لیا۔ اگر عقیدتوں کا تمسخر اڑایا جائے گا تو پھر عقیدت ہی کی وجہ سے کچھ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔

Comments

Click here to post a comment