ہوم << پرچم جلانے سے نعرے لگانے تک - جنید اعوان

پرچم جلانے سے نعرے لگانے تک - جنید اعوان

جنید اعوان الطاف حسین نے نفرت پر مبنی جس سیاست کا آغاز 1978ء میں پاکستان کا پرچم جلانے سے کیا تھا، 38 سال بعد 2016ء میں پاکستان کے خلاف نعرے لگا کر اس کو منطقی انجام تک بھی خود ہی لے آئے۔ اے پی ایم ایس او سے کے قیام سے شروع ہونے والی یہ تلخ کہانی جس میں مہاجر قومی موومنٹ اور متحدہ قومی موومنٹ کی صورت میں کئی پیچ و خم آئے، اب ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم انگلستان کے دھڑوں کی صورت میں اس کا ڈراپ سین ہو رہا ہے۔
نفرت کے شجر کی تشدد سے آبیاری کی گئی تو ایم کیوایم پروان چڑھی جس میں ظلم کے کسیلے پھل نمودار ہوئے۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں کر ہوا؟ اس کے لیےایم کیو ایم کی سیاست کا تجزیہ بھی ضروری ہے، الطاف حسین کی شخصیت کا جائزہ بھی ناگزیر ہے، مہاجر قوم کی نفسیات کا ادراک بھی لازم ہے، اور حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے رویے کو پرکھنا بھی اہم ہے۔
قوموں کی نفسیات ہوتی ہیں اور مہاجر قوم کی بھی نفسیات تھیں جس میں علم دوستی، نفاست، نستعلیق گفتگو، چوڑی دار پاجامہ، حب الوطنی نمایاں تھے۔ جنگ و جدل، تشدد، اسلحہ، بوری بند لاش جیسے الفاظ تو کبھی ان کی لغت کا حصہ نہ تھے۔ کیا وجہ ہے کہ الطاف حسین نامی ایک فرد جو نہ تو کرشماتی شخصیت کا مالک تھا، نہ غیرمعمولی خطابت کا حامل تھا، نہ علم و ہنر میں ید طولیٰ تھا اور نہ ہی بادی النظر میں کوئی قائدانہ خوبی ایسی اس میں نظر آتی ہے لیکن اس نے ایک قوم کی نفسیات تک بدل ڈالی۔ اس ایک شخص نے اپنے انتقام اور احساس محرومی کی آگ میں ایک پوری قوم کو جھونک ڈالا۔ مہاجروں کو پاکستان میں صرف شناخت کی ضرورت تھی اور الطاف حسین نے مہاجروں کو مجتمع کر کے یہ شناخت تو ان کو عطا کردی، البتہ اس شناخت کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاش، بھتہ خوری، ٹارچر سیل، فیصل موٹا اور اجمل پہاڑی کی صورت میں ان کو شناخت تو نصیب ہوئی لیکن بدقسمتی سے یہ ان کی حقیقی شناخت نہ تھی۔ یہ ایک مسخ شدہ شناخت تھی، جیسے کسی خوبصورت لڑکی کے چہرے پر تیزاب انڈیل دیا گیا ہو۔
انتہائی سطحی تجزیہ ہوگا اگر صرف الطاف حسین کو ان تمام حالات کا مورد الزام ٹھہرادیا جائے۔ یہ بات کرتے ہوئے تو سب کے ہی پر جل جلتے ہیں کہ یہاں تک آنے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی کم نہیں رہا۔ ملک کے حقیقی خیر خواہ ہونے کے دعویدار گر تو اتنے بے خبر تھے کہ اتنےطویل عرصے میں اس فتنے کا ادراک ہی نہ کر سکے تو پھر یہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر ایک سوال ہے۔ اور اگر ایم کیو ایم کی ملک دشمن سرگرمیوں کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود وہ ان سانپوں کو دودھ پلاتے رہے کہ کراچی میں کوئی حقیقی اسلام پسند قوت نہ ابھر سکے تو پھر انھیں بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکستا ہے۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ 2013ء کے الیکشن میں ایم کیو ایم نے سرعام دھاندلی کی جبکہ مقتدر حلقے کھلی آنکھوں اور بند ضمیر کے ساتھ سب کچھ دیکھتے رہےتھے۔
برسراقتدار جماعتوں مانند مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے جب ہمیں توقع ہی کوئی نہیں تو پھر ان سے گلہ کیسا۔ اقتدار جن کا مطمع نظر، شکم پرستی جن کا مسلک اور کرسی جن کی منزل ہو، ان سے ملک و قوم کی بہتری اور رہنمائی کی امید لگا کر ہم ان کا تو کچھ نہیں بگاڑیں گے، اپنے آپ کو ہی بیوقوفوں کی فہرست میں شامل کرلیں گے جو کہ پہلے ہی خاصی طویل ہے۔
سچ یہ ہے کہ اذانوں اور نمازوں کے دیس پاکستان کو تا قیامت قائم رہنا ہے۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ پاکستان حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کی طرح اللہ کی نشانی ہے، جس نے اس اونٹنی کونقصان پہنچایا، اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، اور جس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، وہ ذلت کا حقدار ٹھہرا۔
قدرت کا قانون ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، ہر ظلم کو خاتمہ ہے، ہر جاندار کو فنا ہے، ہر تشدد کوموت ہے، ہر شب کی سحر ہے لیکن اس کے لیے انصاف کو پروان چڑھانا ہوگا، عصبیت کا خاتمہ کرنا ہوگا، محبت کے نغمے گانے ہوں گے، عدل کو فروغ دینا ہوگا تاکہ پھر کوئی الطاف حسین پیدا نہ ہو اور پھر کوئی نسل برباد نہ ہو۔
خدا کرے کہ مری ارض پا ک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو