الطاف حسین کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے بعد اور اس کے بعد کی صورتحال کے باوجود کراچی کے حالات معمول پر رہے ہیں۔ کہیں ہلکا سا شک تھا کہ پہلے کی طرح ردعمل کے طور پر کراچی میں خوف بھرا سناٹا نہ چھایا ہو مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جاری کاروبار، اسکول جاتے بچے، کھلے پیٹرول پمپ اور سڑکوں پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ نے یقین دلایا کہ کراچی بدل چکا ہے اور کراچی اب آزاد ہے۔
کراچی پر غنڈہ راج ختم ہوا چاہتا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں نے بتا دیا ہے کہ اب غنڈہ گردی نہیں چلے گی۔ پاکستان کے باہر بیٹھے ایک غدار نے پاکستان میں رہنے والوں اور پاکستان ہی کا کھانے والوں سے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے اور افسوس ان سننے والوں پر جنہوں نے اس بےخود کی بات سنی اور دیے گئے احکامات پر عمل بھی کر ڈالا، اور خود ہی اپنے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی. آخرکار کراچی کو اس دہشت اور ان دہشت گردوں سے نجات دلانے کا موقع خود اس پارٹی کی قیادت نے فراہم کر دیا۔ وہ لوگ جو خود کو دیوار سے لگائے جانے کی دہائی دیا کرتے تھے، خود اپنی ہی قبر کھود بیٹھے اور ایسا ہونا ہی تھا. اس دہشت کا زوال ہونا ہی تھا۔ سندھ اور خصوصًا کراچی کو جس طرح یرغمال بنا کر رکھا گیا تھا تو کبھی نہ کبھی اس سے نجات تو ملنی ہی تھی۔ جلد یا بدیر یہ ہونا تھا ہاں مگر یہ ہونے تک بہت سے آگ کے دریا پار کرنے پڑے، کئی بار خون کی ہولی کھیلی گئی اور متعدد بار شہر کو تاریکی اور دہشت کے حوالے کر دیا گیا۔ مگر ظلم کی شب کو زوال ہے۔
آج کل طلوع ہوتے سورج نے یہ احساس دلایا ہے کہ اب وہ اچھا وقت شروع ہوا چاہتا ہے جب کراچی خوف سے پاک ہو گا، لسانیت کا نعرہ لگا کر اور مظلومیت کا ڈھونگ رچا کر ظلم ڈھانے والے اپنے انجام کو پہنچیں گے اور پھر کوئی پاکستان مخالف نعرے نہیں لگائےگا۔ پاکستان کو ناسور کہنے والے شیطان نما انسان اور بیمار ذہنیت رکھنے والے ایسے لیڈر اللہ کرے کہ اب پیدا نہ ہوں، راحیل شریف، حمید گل اور بلال اکبر جیسے بہادر بیٹے اس قوم کو ملتے رہیں اور یہ ملک قائد اعظم کا پاکستان بن جائے، جہاں لسانیت کا نعرہ بلند نہ ہو، جہاں خوف کی فضا میں جینا محال نہ ہو، جہاں صرف پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند ہو، اور ایک ہی آواز بلند ہو کہ پاکستان ہمارا ہے اور ہم صرف پاکستانی ہیں۔ آمین۔ پاکستان زندہ باد۔
تبصرہ لکھیے