مجھے تو اپنی23 سالہ زندگی میں پہلی بار معلوم پڑا کہ
پاکستان ساری دنیا کے لیے ایک ناسور ہے
پاکستان دنیا کے لیے ایک عذاب ہے
پاکستان ساری دنیا کے لیے دہشت گردی کا ایک سینٹر ہے
اس کا خاتمہ عین عبادت ہوگا
کاہے کو پاکستان زندہ باد
پاکستان مردہ باد، پاکستان مردہ باد
الطاف حسین نے تو بہت اچھا سبق پڑھایا
کاش یہ سبق ہمیں نصابی کتابوں میں پڑھایا جاتا
کاش یہ سبق پاکستانی کی تاریخ کی کتب میں ملتا
کاش یہ باتیں ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں مہاجرین کی زبانی سنتے
کاش ہماری مائیں ہمیں گود میں یہی لوریاں سناتیں
کاش یہ باتیں ہمیں پاکستانی محبان وطن بتاتے
کاش یہ باتیں ہمیں پاکستانی سرحدوں کے محافظ بتاتے
کاش یہ باتیں ہمیں پاکسان کی خفیہ ایجنسز بتاتیں جو دن رات اس مملکت کے لئے کھپتی پھرتی ہیں
کاش یہ باتیں ہمیں حکومت خموشاں کے ’’خاموش سیاستدان‘‘ بھی بغیر لگی لپٹی کے بتا ڈالتے
کم از کم ہم اس خوش فہمی میں مبتلا تو نہ رہتے کہ دنیا والوں کے سامنے پاکستان کی اپنی ایک الگ حیثیت ہے۔ ہم تو اس بھول میں رہے کہ پاکستان کی حیثیت اسلامی ممالک کے لیے ایک بڑے جیسی ہے۔ ہمیں تو ہمارے اساتذہ کرام نے یہ بتایا تھا کہ بچو! پاکستان ایٹمی ممالک میں شامل ہے، ہمیں ہمارے قومی ملی نغموں میں یہ گیت تو نہ سننے کو ملتے
اے راہ حق کے شہیدو
وفا کی تصویروں
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں۔
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھادیےتم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لیے تم نے
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں۔
اے راہ حق کے شہیدو
لیکن نامعلوم کس سے بھول ہوئی۔ ہمارے والدین سے، قوم کے معماروں سے، سیاستدانوں سے، قومی سلامتی کے اداروں سے یا معلوم نہیں کس سے بھول ہوئی انجانے میں یا دانستہ مگر، ایک بات تو معلوم ہے کہ جنہوں نے پاکستان کے خلاف برمودا ٹرائی اینگل تشکیل دیا ہے، ان سے کبھی بھول نہ ہوئی، نہ وہ غافل ہیں نہ وہ سورہے ہیں، اگر آدھی ٹیم رت جگا کرتی ہے تو دوسرا گروہ دن میں کام کرنے کے لیے تیار کھڑا ہوتا ہے۔ ایسی پروڈکٹ تیار کی گئی ہے جس پر لوگ جانیں تک چھڑکتے ہیں۔ اگر مالک انہیں مغلظات بھی بک دے تو ہنسی خوشی قبول کرلیتے ہیں۔ اپنے ملک میں رہ کر اپنوں کے لیے تو گولی بارود پسند کرتے ہیں مگر پاکستان سے باہر جا کر پاکستان کی سالمیت کے لے خطرہ بننے والوں اور پاکستان کے خلاف مغلظات بکنے والوں کو بھائی بھائی کہہ کر سیاست کی جاتی ہے،بصد مقام حیرت.
یہ ٹوپی ڈرامہ کتنی دیر تک چلتا لیکن کوئی تو ہے جو یہ سب کچھ مسلسل دیکھتا رہا اور پھر اپنا کوڑا برسایا تو لندن کی قیادت اور کراچی رابطہ کمیٹی میں نجانے کہاں اختلاف ہوا کہ چھوٹا بھائی ناراض ہوا یا بڑا نشے میں مست ہو رہا اور ’’جذبات‘‘میں آ کر ماں کو گالی دے دی۔ اور کارکنان تو بیٹھے ہی شاید اس لیے ہیں کہ الطاف کی زہر آلود تقریروں کے بعد لگی آگ پر پانی پھینکیں۔ اور جانتے بوجھتے کہ پاکستان میں اس وقت ایم کیو ایم پر کیا وقت چل رہا ہے، چھوٹے بھائی کی سالوں کی خدمات اور جی حضور جی حضور کو یکسر نظر انداز کر ڈالا. سچ کہا کسی نے کہ رب کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، پہلے خوب ڈھیل ملتی ہے، پھر اچانک اوپر والے قہار کی پکڑ آئے تو پھر لندن کا چرب زبان کسی کام کا نہ نائن زیرو پر پڑے اسلحے کے انبار۔
رینجرز کی ہمت اور خدمت کو سلام جنھوں نے کراچی کو امن دیا ہے اور اس صورتحال کے بعد حالات کو خراب نہیں ہونے دیا. بس اب اک خواہش ہے کہ جن ماؤں کی گودیں اجڑیں انہیں عدل ملے، جن عورتوں کے سہاگ لٹے، انہیں انصاف ملے اور جو بچے یتیم اور بہن بھائی ایک دوسرے سے جدا ہوئے، انہیں ایک عدد جہانگیری زنجیر عدل مل جائے تاکہ ان کے دکھوں کا کچھ تو مداوا ہو سکے، ان کے زخم پر مرہم کا پھاہا رکھا جاسکے۔ اگر آج بھی انصاف نہ مل سکا تو پھر سے پاکستان کی کاروباری شہ رگ لہو لہو ہوتی رہے گی، پاکستان کا اکنامک کوریڈر اپنی موت آپ مرنے لگے گا۔ پاکستان کو ایشئین ٹائیگر بنانے والوں کا خواب خواب ہی رہ جائے گا۔ آج کا انصاف ان شاء اللہ کل کی نوید سحر ہوگی جس میں پاکستان ان شاء اللہ ایک طاقت بن کر ابھرے گا۔
تبصرہ لکھیے