الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور ہمارے لوگ ہیں کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اس غداری کے باوجود ایم کیو ایم کے رہنما کو ــ’’محترم‘‘ اور ’’صاحب‘‘ کہہ کر پکاررہے ہیں۔ گزشتہ روز ایک ٹی ٹی ٹاک شو میں وفاقی وزیر خرم دستگیر نے ایم کیو ایم کے رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’محترم الطاف حسین‘‘ نے معافی مانگ لی ہے۔ ہم بھی عجیب مخلوق ہیں۔ ایک شخص پاکستان کے خلاف نعرے لگا رہا ہے ، اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو گالیاں دے رہا ہے، پاکستان کو توڑنے کی بات کر رہا ہے اور ہمارے لیے وہ اب بھی ’محترم‘‘ اور ’’صاحب‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
خرم دستگیر کے ’’محترم‘‘ الطاف حسین نے دو روز قبل پاکستان کے خلاف پاکستان کے اندر اپنے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے ایسی زبان استعمال کی جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس پر جب پاکستان بھر سے سخت ردعمل آیا تو الطاف حسین نے اپنے ایک بیان میں ہمیشہ کی طرح معافی مانگ لی۔ لیکن چند ہی گھنٹوں کے بعد گزشتہ روز الطاف حسین نے امریکا میں پارٹی ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف وہ زہر اگلا جو اُن کی گذشتہ تقریر سے بھی کئی ہاتھ آگے تھا۔ اس پاکستان مخالف تقریر کے کچھ حصے Whatsapp کے ذریعے مجھے موصول ہوئے جنہیں سن کر احساس ہوا کہ کس قدر اس شخص کے اندر پاکستان کے خلاف نفرت بھری پڑی ہے۔
اس تقریر میں الطاف حسین بابر غوری اور کچھ دوسرے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی خوب ایسی تیسی اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے الطاف حسین کی دو روز قبل والی تقریر میں پاکستان مخالف نعرے لگانے پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے ٹیوٹس (Tweets) کیے۔ بابر غوری جو امریکا میں ایم کیو ایم کی اس میٹنگ میں موجود تھے جس سے الطاف نے خطاب کیا کو مجبور کیا گیا کہ وہ پاکستان زندہ باد کا ٹیوٹ کرنے پر معافی مانگیں۔ اسی خطاب میں الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف اسرائیل، انڈیا، ایران، امریکا وغیرہ سے مدد لینے کی بھی بات کی۔ اس سے بڑی پاکستان دشمنی کیا ہو سکتی ہے۔
اب الطاف حسین کو یہ بھی قبول نہیں کہ اس کے رہنما یا ورکرز پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کریں۔ یعنی اب الطاف حسین پاکستان زندہ باد کے نعرہ پر بھی بھڑک اٹھتا ہے۔ اور ایسا شخص پاکستان کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت کا ’’قائد‘‘ کہلاتا ہے۔ پاکستان کے خلاف الطاف حسین کی ہرزہ سرائی اور نعرہ بازی نے ایم کیو ایم کی لوکل لیڈرشب کو بھی پریشان کر دیا۔ جو کچھ الطاف حسین نے کہا اُس نے مہاجر قوم کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر فرد کے دل کودکھایا۔ فاروق ستار اور دوسرے کئی پارٹی رہنمائوں نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں الطاف حسین کی دو روز قبل پاکستان مخالف نعرہ بازی کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب ایم کیو ایم پاکستان اپنے فیصلے خود کرے گی۔
فاروق ستار نے الطاف حسین کی صحت اور ’’کیفیت‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب معاملات ایسے نہیں چل سکتے اور نہ ہی پاکستان مخالف کوئی بات یہاں کی جا سکتی ہے۔ فاروق ستار کی اس پریس کانفرنس پر مختلف لوگ مختلف تجزیہ دے رہے ہیں۔ کسی کے مطابق یہ سب ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی ڈرامہ بازی ہے، کچھ کا خیال ہے کہ الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرہ لگا کر پاکستان میں موجود پارٹی رہنمائوں اورمہاجروں کے دل کھٹے کر دیے اور اب الطاف حسین کو ایم کیو ایم کے اندر سخت مخالفت کا سامنا ہے۔
ایم کیو ایم کی پالیسیوں سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اگر الطاف حسین پاکستان مخالفت میں تمام حدیں پار کر چکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایم کیو ایم کے تمام رہنمااور ورکرز بھی الطاف کے خیالات سے متفق ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فاروق ستار اور دوسروں کو معافی مانگنے اور الطاف حسین کے بیان کی مذمت نہ دینا پڑتی۔ کراچی کے لوگ اور مہاجر جنہوں نے پاکستان کے قیام کے وقت بے پناہ قربانیاں دیں وہ کیسے پاکستان مخالف کسی سازش کو کامیاب ہونے دیں گے۔ میں ذاتی طور پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی اس بات سے متفق ہوں کہ فاروق ستار اور دوسرے ایم کیو ایم رہنما اپنے اور الطاف حسین کے درمیان فاصلہ پیدا کر رہے ہیں جس پر ان کی مدد کرنی چاہیے۔
خورشید شاہ نے یہ بھی ٹھیک کہا کہ ایم کیو ایم میں مائنس ون فارمولہ کے علاوہ اب کوئی دوسرا حل نہیں۔ فاروق ستار اور دوسرے ایم کیو ایم رہنمائوں کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اب وہ اپنی تقریروں اور خطابات میں الطاف حسین کا ذکر نہ کریں۔ کیوں کہ جو شخص پاکستان دشمنی پر اتر آیا اور اُس کا بار بار اظہار کر رہا ہے وہ پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کا رہنما کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر الطاف حسین کو اُن کی پاکستان مخالف مہم کے باوجود یہاں قائد کے طور پر تسلیم کیا گیا تو اس سے فتنہ ختم نہیں ہو گا۔
اس سلسلے میں وفاقی حکومت کا کردار بہت اہم ہو گا کہ وہ پاکستان کے اندر اور برطانوی حکومت کے ذریعے کس طرح الطاف حسین کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں ۔ جہاں تک کراچی کی عوام اور مہاجروں کا تعلق ہے، اُن کی حب الوطنی پر کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تو الطاف حسین کی پرتشدد اور پاکستان مخالف سیاست کا نتیجہ ہے کہ پاکستان سے محبت کرنے والوں اور کراچی کے اس تہذیب یافتہ پڑھے لکھے طبقہ کی پہچان کو گم کر دیا گیا۔
ہم سب کو اس محب الوطن طبقہ کی پہچان کو واپس لانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کی مخالفت کرنے والا کوئی شخص مہاجروں کے نام پر پاکستان کو کمزور کرنے کی کسی بیرونی سازش کو یہاں کامیاب نہ کر سکے۔
تبصرہ لکھیے