میرا ذاتی تعلق ایم کیو ایم کے قائدین سے بڑا طویل پس منظر رکھتا ہے۔1988ء میں پہلی دفعہ میاں نواز شریف نے اپنے گھر ماڈل ٹائون میں الطاف حسین سے میرا تعارف کروایا۔الطاف حسین نے اپنی عادت کے مطابق میاں نواز شریف سے کہا میاں صاحب آپ جس شخص کا مجھ سے تعارف کروا رہے ہیں اس کی زیر قیادت ہم نے جمہوریت کی بحالی اور بنگلہ دیش نا منظور کی تحریکیں چلائی ہوئی ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے پر جب ساری اپوزیشن بیٹھ گئی تو صرف ایک ہی آدمی آمریت کے خلاف جنگ لڑ رہا تھااور یہ حقیقت ہے کہ بھٹو کے دور میں قائد حزب اختلاف کا کردار بھی تمام مشکلات اور مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے کیا۔میں تو ان کاایک کارکن تھا۔ایم کیو ایم کے ساتھ ایک متوسط طبقات کی جنگ لڑنے والی طاقت تھی۔ان کے جتنے ایم این اے 1985ء سے اسمبلی میں آئے ہیں وہ انتہائی غریبوں کے بچے ہیں۔مجھے ایم کیو ایم سے جتنی ہمدردی تھی وہ الطاف حسین کے 30سالہ رویے نے ختم کر دی۔
قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے آنے والے مسلمان مشرقی پاکستان سمیت تمام صوبوں میں آکر آباد ہوئے۔ مقامی لوگوں نے اپنے بھائیوں کو خوش آمدید کہا۔ شروع شروع میں ہجرت مدینہ کی مواخات کے مناظر چاروں طرف نظر آئے۔ قیام پاکستان سے پہلے پنجاب اور سندھ کے اکثر بڑے شہروں میں ہندو کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ تھی۔ چونکہ شہر تجارت کے مرکز ہوتے تھے اس لیے تجارت پر بھی ہندوئوں کا مکمل قبضہ تھا۔ مسلمان اس میدان میں خال خال نظر آتے تھے۔
جب مہاجرین ہندوستان سے آئے تو خالی شہر اور تجارتی مراکز اُن کے استقبال کے لیے موجود تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آنے والوں کی اکثریت اپنا سب کچھ قربان کر کے اپنی خوابوں کی سرزمین پر پہنچی تھی۔ اُن کے ذہنوں میں اُس وقت اپنے دین اور اپنی اقدار کے تحفظ کے علاوہ کوئی اور جذبہ موجود نہ تھا۔ نہ ہی انہیں یہ معلوم تھا کہ انہوں نے کسی شہر میں رہنا ہے یا دیہات میں۔ جسے جہاں سر چھپانے کی جگہ ملی اس نے اسے خوش دلی سے قبول کر کے خدا کا شکر ادا کیا۔
کراچی کو ملک کا دارالحکومت بنایا گیا تو یہ چھوٹا شہر کروڑوں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ دلّی جیسے دارالحکومت کے رہنے والوں نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا توحیدر آباد دکن جیسے پایہ تخت کے لوگ بھی یہیں کھچے چلے آئے۔ ممبئی جیسے بندرگاہ والے مسلمان شہریوں کا مسکن بھی اب پاکستان کی واحد بندرگاہ کا درجہ رکھنے والا یہی شہر تھا۔ کراچی میں سرمائے کی ریل پیل ہونے لگی تو اندرون ملک کے لوگ بھی روزگار کی تلاش میں یہاں آکر بس گئے۔ صوبہ سندھ کا سب سے بڑا شہر حیدرآباد ہندوئوں کے جانے کی وجہ سے خالی ہوا تو وہاں بھی ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو آباد کر دیا گیا۔ اس طرح دو بڑے شہر ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے بڑے مرکز بن گئے۔
کچھ عرصہ تک تو مواخات (اسلامی بھائی چارے) کا جذبہ موجود رہا پھر زمینی حقیقتوں نے سر اُٹھانا شروع کر دیا۔ مہاجر اپنے پائوں پر کھڑے ہو چکے تھے بلکہ اپنی اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر قومی دھارے میں خون کی طرح گردش کر رہے تھے۔ پاکستانی قوم کا تشخص اُبھر کر سامنے آرہا تھا۔ جو خواب دیکھا گیا اس کی تعبیر میں رنگ بھرے جارہے تھے ایک نوزائیدہ مملکت شاہراہ ترقی پر گامزن ہو چکی تھی۔ یہ صورت حال پاکستان کے بدخواہوں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ انہوں نے پاکستان کے ناکام ہونے کے جو دعوے کیے تھے وہ خاک
میں ملنے لگے تو انہوں نے پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال پھیلا دیئے۔
اس سلسلے میں پاکستانی قیادت سے بھی کوتاہیاں ہوئیں جس کی وجہ سے مقامی آبادیوں اور مہاجرین میں فاصلے بڑھنے لگے اور صوبائیت پرستی ایک فضول نعرہ بن کر اُبھری۔ اس کا سامنا کرنے کے لیے ایک غیرا علانیہ پنجابی مہاجر اتحاد سامنے آگیا جس میں صوبہ سرحد کے پختونوں اور ہزارہ والوں کا ایک بڑا حصہ بھی شامل ہو گیا۔ اس اتحاد کو مضبوط مرکز کا محافظ قرار دے دیا گیا۔ علماء کی تنظیموں کی پشت پناہی سے یہ اتحاد وفاق اور اسلامی جمہوریہ کی علامت بن گیا ۔ سول بیورو کریسی اور فوج اس اتحاد کی فطری حلیف تھی۔
بنگالی، بلوچی ،سندھی اور نیشنلسٹ پختون اپنے آپ کو اس اتحاد سے غیر محفوظ سمجھنے لگے۔ اس سلسلے میں ان کے خدشات مبنی بر حقیقت تھے۔ کیونکہ مرکز کی مضبوطی کے نعرے میں عام آدمی کے لیے کشش موجود ہونے کے باوجود اُن کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا اور عملی طور پر وہ خود کو مملکت کے معاشی دھارے سے الگ محسوس کرنے لگے۔جوں جوں صوبائی آزادی اور صوبائی قومیت کے نعرے میں تیزی آتی گئی مہاجروں کو اپنے وجود کو منوانے کی فکر پڑ گئی۔ وہ پہلے ہی دارالحکومت
کو اسلام آباد لے جانے پر برہم تھے۔ اس تازہ صورت حال میں اُن کے سامنے اس کے سواکوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اپنا الگ تشخص منوانے کے لیے آگے بڑھیں۔
اس سلسلے میں اُن کا پہلا ٹکرائو سندھ کے پرانے باسیوں کے ساتھ ہو گیا۔ پیپلز پارٹی نے پرانے سندھیوں کو اہمیت دی تو کراچی اور حیدرآباد آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ اس ٹکرائو نے آگے کئی رُخ بدلے مگر مہاجرین کی وفاق کے ساتھ وفاداری میں کمزوری نہ آسکی۔ البتہ یہ سوچ تقویت حاصل کرنے لگی کہ مہاجرین اب معاشی سہارے کے متلاشی نہیں بلکہ وہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کی آمدنی کے ذرائع پر دوسرے صوبوں کی معیشت چلائی جارہی ہے۔
اِس سوچ کے حوالے سے انہوں نے پرانے سندھیوں کے ساتھ بقائے باہمی کے اُصول کے طور پر مل جل کر فیصلے کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ اس سلسلے میں اُن کا اعتماد حاصل نہ کر سکے۔ کراچی کی اکثریت کا دعویٰ رکھنے والی قومی قیادت نے بھی اِس سوچ کو پروان نہ چڑھنے دیا اور وفاق پاکستان کے حوالے سے سیاست کرنے کو ترجیح دی مگر قومی قیادت مہاجرین کی محرومیوں کے خاتمے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہ کر سکی۔ ضیاء الحق کا دور آیا تو جماعت اسلامی نے شروع میں اُن کا ساتھ دیا بلکہ تمام مہاجرین بھٹو کے خلاف تحریک میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کر رہے تھے۔ (جاری)
تبصرہ لکھیے