ہوم << جنگل کا شیر اور جمہویت، کچھ الجھنیں، کچھ سوالات - فرہاد علی

جنگل کا شیر اور جمہویت، کچھ الجھنیں، کچھ سوالات - فرہاد علی

جنگل کا بادشاہ شیر روز بروز کمزور ہونے لگا تو تیز بھاگنے والے جانور اس کی دسترس سے باہر ہونے لگے۔ گزر اوقات کے لیے شیر چھوٹے موٹے جانوروں کا شکار کرنے لگا۔ مگر شیر کی بہادری پر سوالات اٹھنے کا اندیشہ تھا۔ شیر نے پروپیگنڈے کے بارے میں سنا تو اس نے ایک لومڑی اور ایک گیدڑ کو ہائر کیا۔ شیر لومڑی اور گیدڑ کو ایک آدھ ہڈی دے دیتا تھا اور پھر ان کو جنگل میں بھیج دیتا تاکہ وہ جنگل میں بادشاہ سلامت کی رحم دلی، بہادری اور رعایا سے محبت کی داستانیں عام کریں۔ لومڑی اور گیدڑ کو بیٹھے بٹھائے پیٹ بھر کھانا بھی ملتا اور جنگل میں ان کا رعب بھی قائم ہوگیا۔ دو وقت کے کھانے کے لیے خوار ہونے والے گیدڑ اور لومڑی کے وارے نیارے ہوگئے اور وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن گئے۔ انہوں نے جنگل میں شیر کی ایسی ساکھ بنائی کہ اگر کوئی اس کی قتل و غارت پر نکتہ چینی کرتا تو جنگل کے جذباتی بندر اور دوسرے نادان جانور اس کو جنگل کا دشمن اور ایجنٹ کہتے اور فسادی کے القابات سے نوازتے تھے۔ وہ بے چارہ جنگل میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ اس طرح شیر کو شکار اور لومڑی اور گیدڑ کو پس خوردہ ملتا رہا۔ بندر اچھل اچھل کر شیر کے حق میں نعرے لگاتے اور شیر کا کاروبار چلتا رہا۔
جمہوریت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ عالمی معاملات کو اپنی مٹھی میں رکھنے والوں نے کچھ ایسے بندے ہائر کر رکھے ہیں جو اپنے پس خوردہ کے عوض جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور بندر مفت میں اس کی مدح سرائی میں مصروف ہیں۔ بد قسمتی سے بندروں کی تعداد ملک عزیز میں عام تناسب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ یوں تو جمہوریت نامی کوئی چیز اگر ہے تو صرف عالمی سامراج کے مفادات کا مہرہ ہے۔ مفادات پر زد پڑتی ہے تو جمہوریت کو دیوار سے اور آمروں کو سینے سے لگایا جاتا ہے۔ ایک ایک ملک کا نام لینا مشکل مگر جنوبی ایشیا، جزیرہ نما عرب، افریقہ، مشرق وسطی اور کچھ دوسرے متفرق ممالک اس میں شامل ہیں ۔
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ ایک پاک صاف اور پوتر نظام ہے تو بھی اس میں سو چھید ہیں جن میں کمزور طبقے نکل جاتے ہیں اور زور آور گھس آتے ہیں۔ جمہوریت خواہ کہیں بھی ہو، انتخابات اس کا لازمی جز ہے اور اس کے اختیارات انسانوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جو اس پر طرح طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں، غیرقانونی طور پر بھی اور قانونی طور پر بھی۔ غیر قانونی طور پر تو سب ہی غلط تسلیم کرتے ہیں اگرچہ اس چور دروازے کا سدباب بھی ضروری ہے مگر قانون کی طرف سے اجازت ملنا چہ معنی دارد۔ نیز اس کے لیے وسائل بھی بے پناہ درکار ہوتے ہیں، ایک آدمی اگر محب وطن ہے اور انتظام و انصرام کی صلاحیتوں سے مالامال ہے تو جب تک اس کے پاس کمپین چلانے، میڈیا اور اینکر خریدنے، اشتہارات چلانے اور چھپوانے، سائن بورڈز بھرنے اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے گنجینہ قارون نہ ہو تو یہ آدمی عمر بھر کی تگ و دو اور خدمت خلق سے وزیراعظم کیا، اپنے یونین کونسل کا ناظم بھی نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی شخص ڈونیشن کا سہارا لے گا تو جو سرمایہ دار سرمایہ لگاتے ہیں، وہ سود سمیت وصول کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو کروڑوں کی گاڑیاں دینے کے بعد ٹکٹ ملتا ہے وہ اربوں کا غبن کرتے ہیں۔ بعض حضرات لے دے کے نیلسن منڈیلا کی مثال دیں گے۔ اربوں کی آبادی میں ایک شخص اور بھی دہائیوں کی قید و بند کے بعد۔ یعنی بے چارہ غریب جوانی کے جیل کی سلاخوں کی نذر کرے گا تو کہیں جا کر اس نظام کا اعلی منصب حاصل کرے گا۔ البتہ جمہوریت کا یہ تابناک اور حسین چہرہ ملاحظہ کیجیے کہ ایک ایسا لڑکا جس کے شاید دانت بھی ابھی پورے نہیں ہوئے وہ ولی عہد بھی بن سکتا ہے اور طویل مدت تک وزارت اعلی کے عہدہ پر فائز شخص کو اشارہ آبرو سے نکال باہر بھی کر سکتا ہے۔
انتخابات پر اثرانداز ہونے کے ثمرات دیکھیے کہ قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو ایک ڈکٹیٹر کے مقابلہ میں ہرایا گیا اور بقول کسے اگرخود قائداعظم ہوتے تو بھی ہار جاتا۔ یہاں یار لوگ بڑی چالاکی سے سارا ملبہ مذہبی طبقہ پر ڈال دیتا ہے کہ فاطمہ جناح ان کے فتووں کی وجہ سے ہار گئی مگر ایوب خان کے وہ سارے دائو پیچ نظر انداز کردیتے ہیں جو
انہوں نے فاطمہ جناح کو ہرانے کے لیے جمہوریت کی چھتری تلے اختیار کیے۔ یہ جمہوریت میں وہ چھید ہی ہیں جن سے ایوب خان اقتدار میں گھس آیا اور فاطمہ جناح کو باہر کیا۔
اگر مال و دولت کے بل بوتے پر دیانت دار اور مخلص قیادت سامنے آتی تو اقتدار کو اسی طبقہ کا حق سمجھ کر مسلمان تقدیر، نصیب اور خدا کی تقسیم اور غیر مسلم طبقاتی تقسیم اور جرم ضعیفی سمجھ کر سہہ لیتے مگر درد اس وقت سوا ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ چوری، قتل، اغوا اور زنا جیسے جرائم میں جیل کی ہوا کھانے والے لوٹ کھسوٹ، چوری چکاری اور ناجائز دھن سے اقتدار کی کرسی پر پہنچ جاتے ہیں اور قانون کے رکھوالے ان مقدس چوروں اور ڈاکووں کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ جمہوریت کا یہ پہلو کتنا تابناک ہے کہ حقیر سے حقیر ملازمت کے لیے صلاحیت، تعلیم اور نیک کردار ضروری ہے مگر قیادت جیسا ’’بےکار‘‘ اور ’’ادنی‘‘ عہدہ نیم پاگل، انگوٹھا چھاپ، پارلیمنٹ میں خراٹے لینے والا اور کرپٹ شخص بھی حاصل کر سکتا ہے۔ شومئی قسمت کہ ہمارے ملک میں ایسے ہی لوگ اقتدار حاصل کرکے گل چھڑے اڑا رہے ہیں۔
جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جمہوریت نے ستر سال میں اس ملک کو کیا دیا تو جواب دیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو تو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ ڈکٹیٹروں نے اس پر شب خون مارا اور آدھے سے زیادہ عرصہ ڈکٹیٹر شپ کی نذر ہوگیا مگر پریشانی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب ہم اپنے پڑوسی ملک کو دیکھتے ہیں کہ وہاں پر تو روز اول سے جمہوریت ہی چلی آرہی ہے مگر وہاں بھی صورت حال کم و بیش ایسی ہی ہے۔ ایک پڑوسی ملک پر ہی کیا موقوف، تمام ترقی پذیر ممالک کی صورت حال جمہوریت کے باوجود یہی چلی آرہی ہے کیونکہ یہی عالمی سامراج کو مطلوب ہے ۔
یہ کچھ الجھنیں ہیں جو الجھتی ہی چلی جا رہی ہیں اور کچھ سوالات ہیں جو پریشان کیے جا رہے ہیں مگر ڈر لگتا ہے ان گیدڑوں اور لومڑیوں سے جو ایک ہڈی کے عوض آدمی کو ملک دشمن، بوٹوں کا شیدائی، ملک کو پیچھے لے جانے والا، گنبد کے باسی، تخیلاتی دنیا کا اسیر، تنگ نظر اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔ ان کو تو چلو پھر بھی کچھ مل رہا ہے مگر ان بندروں کا حال عبد اللہ دیوانے کا ہے جو دوسروں کی شادی میں ناچ رہے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment