دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ابتدائی دنوں کی بات ہے، معروف امریکی تھنک ٹینک ’’اسٹریٹیجک فورکاسٹنگ‘‘ نے ایک مقالہ جاری کیا جس میں اس جنگ کا سیاق و سباق معین کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس مقالہ میں دو باتیں بہت دلچسپ تھیں:
1۔ ان کی رائے میں یہ جنگ فتح و شکست کے عمومی تصور سے ماورا تھی۔ اس کی وجہ اس کے اہداف تھے۔ مسلم دنیا میں بڑھتی عسکریت پسندی جو اب مغرب کے لیے خطرات کا باعث بننے کے لیے پر تولنے لگی تھی، اس کا اولین ہدف تھی۔ پلان یہ تھا کہ اس عسکریت پسندی کو انہی ملکوں کی سرحدوں کے اندر مقید کر دیا جائے اور انہی ممالک کی افواج کے ذمہ یہ کام ہو کہ وہ ان گروہوں کے ساتھ برسر پیکار رہیں۔ یعنی گھر کی لاٹھی کو گھر ہی کے ’’سانپ‘‘ کے پیچھے لگا دیا جائے۔
2۔ دوسرا یہ کہ اس جنگ کے لیے نکتہ آغاز تو ہے لیکن اسے ختم کب ہونا ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس جنگ میں امریکہ کی کامیابی اور شکست کا تعین کرتے ہوئے ’’سٹراٹ فار‘‘ کا یہ تجزیہ ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے۔ 11 ستمبر 2001ء کے بعد امریکہ میں تو کوئی ایسا حملہ نہ ہوا جسے باقاعدہ دہشت گردی کہا جا سکے لیکن مسلمان ممالک میں کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ اور یہ سلسلہ آج 15 برس گزر جانے کے باوجود تھما نہیں۔
اتفاق دیکھیے۔ نومبر 2008ء میں بھارت کے شہر ممبئی میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوتا ہے جسے بھارت کی جانب سے اس کا 9/11 قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کے ذمہ دار کے طور پاکستان کا نام لیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں اس کے بعد امن ہو جاتا ہے، کیونکہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین پراکسی وار کا پلڑا اب بھارت کے حق میں ہو چکا ہے۔ دنیا اس کو مظلومیت کا سرٹیفیکیٹ جاری کر چکی ہے اور اب بھارت میں پٹاخہ بھی پھوٹے تو الزام فوراً پاکستان پر لگاتا ہے اور باقی دنیا تو جیسے ایسے ہر الزام کو ماننے کو تیار بیٹھی ہے اور پاکستان اپنی صفائیاں پیش کرتا رہتا ہے۔ دوسری جانب بھارت پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں، وہ پاکستان کو جیسے چاہے زچ کرے، اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستان کی شکایتیں اور ڈوزئیر، سب بے کار، کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
بھارت میں صرف بالی وڈ ہی ہالی وڈ کی فلموں کی چربہ سازی نہیں کرتا، بھارت کا سکیورٹی آپریٹس بھی پینٹاگون اور سی آئی اے سے خیالات مستعار لیتا ہے، بلکہ کئی بار تو یوں گمان ہوتا ہے کہ خود امریکہ ہی بھارت کو یہ اسکرپٹ سپلائی کرتا ہے اور اس پر عملدرآمد کی ڈائریکشن بھی وہیں سے آتی ہے۔
بھارت کو یہ احساس ہے کہ ایٹمی برابری کی وجہ سے وہ پاکستان کو براہ راست فوجی جارحیت کا ڈراوا نہیں دے سکتا۔ اس نے کولڈ اسٹارٹ کی بات کی جس کا محور یہ تھا کہ روایتی فوجی مہم جوئی سے اس سرعت سے اپنے مقاصد حاصل کرلیے جائیں کہ پاکستان کو جوہری قوت کے ڈراوے یا استعمال کا موقع ہی نہ مل سکے۔ لیکن اس ڈاکٹرائن کو نیوٹرلائز کر لیا گیا۔ اب وہ ایک دوسرا حربہ اپنانے جا رہا ہے جس کی اسٹریٹیجک وجوہات ہیں۔ اول الذکر میں پاک چین اقتصادی راہداری ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور چین کا باہمی تعلق زیادہ قریبی اور باقاعدہ ہو جائےگا اور جس کی کامیاب تکمیل کے نتیجہ میں پاکستان کے ساتھ کسی گڑبڑ کا مطلب چین کے ساتھ گڑبڑ ہوگا۔ اس مہم میں بھارت کا پاکستان کے چند ’’دوستوں‘‘ کی پشت پناہی حاصل ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے چند پاکستان کو دست نگر رکھنا چاہتے ہیں، کچھ چین کو محدود رکھنا چاہتے ہیں بعض کی نظر التفات دونوں پر ہی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ضرب عضب کے نتیجے میں پاکستان استحکام اور امن کی طرف لوٹ رہا ہے جو کہ معاشی طاقت کا راستہ ہے۔ یہ بھی خطہ میں طاقت کے توازن کو ایک خاص نہج پر رکھنے والوں کے لیے باعث عدم اطمینان ہے۔ تیسرا، اور فوری مسئلہ ہندوستان کے لیے جموں و کشمیر کے تیزی سے بگڑتے حالات ہیں جن کا الزام وہ پاکستان پر لگانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے دنیا کا میڈیا،گو ہلکے پھلکے سے انداز میں ہی سہی، چند سوال پوچھنے لگا ہے اور کشمیر میں جاری انسانی المیہ کو اپنے صفحات پر جگہ دے رہا ہے۔ یہ بات بھارت کے لیے سخت پریشانی کی ہے۔
اس صورتحال سے نکلنے اور پاکستان کو اپنے گھر کے اندر مقید کر دینے کے لیے بھارت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پاکستان کو اس کی Soft Belly پر ہٹ کرے گا۔ اس کے لیے اس نے پاکستان سے باہر اور پاکستان کے اندر اپنے اثاثوں کو پاکستان کے خلاف متحرک کر دیا ہے۔ وہ بنگلہ دیش ہو، حامد کرزئی یا دیگر افغان حکام ہوں، پاکستان سے متعلق دہشت گروپ ہوں، براہمدغ یا حربیار ہوں یا پھر ایسے ہی اور دوسرے لوگ۔ یہاں تک کہ طارق فتح جیسا بدنام زمانہ شخص بھی ان دنوں ان کی میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ دشمن اپنے مقصد کے لیےالطاف بھائی کی حالیہ تقاریر کا فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔ اس نئے پینترے کا بنیادی میدان تخریب کاری کے ساتھ ساتھ میڈیا کا میدان ہی ہوگا جہاں پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ بھارت کی وار آن ٹیرر ہے پاکستان کے خلاف اور اس کے وہی اہداف ہیں جو اوپر امریکہ کی وار آن ٹیرر کے ضمن میں بیان ہوئے۔
دشمن کا یہ استحقاق ہے کہ جو کر سکتا ہے اپنے اہداف کے لیے کرے۔ ورنہ وہ فرائض دشمنی ادا نہیں کر رہا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا کرنا ہے؟ پاکستان کو بس وہی نہیں کرنا جو اس کا دشمن اس سے کروانا چاہتا ہے۔
ماضی میں پاکستان کے داخلی معاملات میں بہت سے پالیسی خلا موجود رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ملک کے بعض حصوں یا جغرافیائی و نسلی اکائیوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید ان کا مفاد کسی کی ترجیح نہیں۔ ایسی ہی جگہوں پر احساس محرومی کو پر تشدد کاروائیوں کا رنگ دے دیے جانے کا امکان زیادہ رہتا ہے۔ دشمن کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ آپ صرف انتظامی یا سیکورٹی مشینری کے سہارے اس کا تدارک کریں کیونکہ اس میں انسانی جانوں کے ضیاع کا احتمال رہتا ہے۔ اس طرح سے ہوا ہر جان کا نقصان ایک نیا ’’شہید‘‘ پیدا کرتا ہے اور پھر چل سو چل۔ دراڑیں بھرنے کے بجائے بڑھنے کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔
دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہنگامی طور پر فیصلے کیے جائیں تاکہ دشمن کا یہ وار خالی جائے لیکن یہ محض ہنگامی نوعیت کے اقدامات پر منتج نہ ہوں۔ اس معرکہ میں کامیابی کا راستہ دورس پلاننگ اور اصلاحات کے پیکج سے ہو کر گزرتا ہے۔
فاٹا ہو، بلوچستان، کراچی یا پھر گلگت بلتستان، عدم اطمینان کی ایسی تمام وجوہات کو فوری طور دیکھنا ہوگا جنہیں کوئی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہو۔ اگر سیاسی قیادت بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے یہ اقدامات کرے تو ہمارے لیے یکجہتی، ترقی اور خوشحالی کا راستہ اور بھی ہموار ہو جائے گا۔
یاد رہے دشمن اکیلا نہیں، نیز وہ مکمل پلاننگ کے ساتھ میدان میں اترا ہے۔ یہ اس کا نفسیاتی کولڈ اسٹارٹ ہے اور ہمیں اس کا توڑ کرنا ہے۔ تاہم اب کہ یہ کام فوج کا نہیں۔ یہ سیاسی قیادت کے وژن اور تحرک کا امتحان ہے۔
تبصرہ لکھیے