ہوم << سوچ کیا ہے؟ ارادہ کیا؟ عبداللہ سبیّل

سوچ کیا ہے؟ ارادہ کیا؟ عبداللہ سبیّل

کوئی دیر ہوئی کہ لکھنے کی عجب سی کسک دل میں جاگی ہے۔ انگڑائیاں لیتی ہوئی اک خواہش دل کے پنہاں گوشوں سے نکل کر دماغ کے خلیوں پر اپنا اثر دکھانے کے لیے بیتاب ہے۔ کچھ ادیبانہ اور ناصحانہ انداز تحریر کی خواہش ایسے بےقرار ہے جیسے جواں عمری کا بانکا عاشق اپنی نوخیز محبوبہ کی ایک ادائی دلبرائی دیکھنےکے لیے عقل و جان وار دینے چلا ہے۔ پر میں لکھوں تو کیونکر لکھوں، لکھوں تو ورقِ سفید کو داغدار کرنےکو کیا لکھوں۔ خیالات ہر لحظہ نت نئےمضامین کا عجیب سا بھنور تیار کر رہے ہیں۔ عقل حیران و پریشاں ہے کہ یہ کیسے؟ ہر اچھوتے اور منفرد خیال سے انفرادیت کا گماں سا ہونے لگتا ہے۔ اپنی جمالیاتی حس پر خود کو داد دیے بغیر چارہ نظر نہیں آتا۔ نفسِ انسان ہے ہی انفرادیت پر قائل اور خود کی مخالفت سے گریزاں۔ ایک ایک خیال سے ایک نیا خیال جنم لے رہا تھا اور میں خود ستائشی میں اتنا مگن ،اتنا خوش اور اتنا منہمک تھا کہ لذت کا عجیب سا احساس مجھے شادماں کیے جا رہا تھا۔ اور وہ آواز بھی مجھے سنائی نہ دی جو میرے کان میں بصورتِ سرگوشی پڑی۔
ٹھہرو۔۔۔!
کیا کہہ رہے ہو۔
آواز پھر آئی۔
میری ذات کی نفی کرتی آواز۔
میری سرشاری اور لذت کو مٹاتی ہوئی آواز۔
’’اور ہم ہی تم پر خیالِ خیر و شر الہام کرتے ہیں۔‘‘
انفرادیت کیسی۔۔۔؟
خوشی و سرشاری کیسی۔۔۔؟
کیسا غرور۔۔۔؟
کیسی خود ستائشی۔۔۔؟
’’تم چاہ بھی نہیں سکتے اگر اللہ نہ چاہے.‘‘
’’بے شک میں نے اپنے رب کو ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا.‘‘
گجرخان کا درویش بھی تو یہ ہی کہتا ہے۔
We don't think, we only choose between thoughts.

Comments

Click here to post a comment