ہوم << مظلوم کشمیریوں کا پاکستان پر احسان-حامد میر

مظلوم کشمیریوں کا پاکستان پر احسان-حامد میر

hamid_mir1
مارک پیری ایک امریکی رائٹر ہے جو دفاعی امور اور علاقائی تنازعات پر بہت گہری نظر رکھتا ہے۔ مارک پیری نے جنوری 2012میں امریکہ کے معروف فارن پالیسی میگزین میں لکھا کہ اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد کی طرف سے پاکستان کے راستے ایرانی بلوچستان میں مداخلت کی جارہی ہے۔مارک پیری نے امریکی سی آئی اے کی کچھ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ موساد کے ایجنٹ امریکی پاسپورٹ ا ستعمال کرتے ہیں اور امریکی سی آئی اے کے نمائندے بن کر بلوچ نوجوانوں کو عسکریت کی طرف راغب کرتے ہیں اور جو نوجوان راضی ہوجائیں انہیں جند اللہ میں بھرتی کرلیا جاتا ہے۔ یہ عسکری تنظیم ایرانی بلوچستان میں آزادی کی تحریک چلارہی ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو ایران نے2010میں بڑے ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا۔ ریگی دبئی سے کرغزستان جارہا تھا۔ جب امارت ائیر لائنز کا ہوائی جہاز ایرانی حدود سے گزر رہا تھا تو ایرانی فضائیہ نے اس جہاز کو زبردستی بندر عباس ائیر پورٹ پر اتارا اور ریگی کو گرفتار کرلیا جو افغان پاسپورٹ پر سفر کررہا تھا۔
ریگی نے ابتدائی تعلیم کراچی کے ایک مدرسے میں حاصل کی لیکن اسے شہرت 2007میں ملی جب وائس آف امریکہ کی فارسی سروس نے اس کا انٹرویو نشر کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ عبدالمالک ریگی ایک ڈاکٹر ہے جو ایران میں بلوچوں کے حقوق کے لئے مسلح جدوجہد میں مصروف ہے۔ مارک پیری کو یقین ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کی طرف سے عبدالمالک ریگی جیسے نوجوانوں کو صرف پاکستان اور افغانستان سے نہیں بلکہ مشرقی وسطیٰ اور مغربی ممالک سے بھی بھرتی کیا جاتا ہے اور انہیں دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
فارن پالیسی میگزین میں مارک پیری کے مضمون کی اشاعت پر اسرائیلی حکومت بہت سیخ پا ہوئی کیونکہ اس سے قبل امریکی میڈیا میں یہ دعوے کئے گئے تھے کہ امریکی سی آئی اے ایرانی بلوچستان میں جنداللہ کی مدد کررہی ہے۔ اے بی سی نیوز نے اپریل2007اور سیمورہرش نے نیویارکر میگزین میں جولائی2007میں واضح طور پر دعویٰ کیا کہ سی آئی اے کی طرف سے جند اللہ کو مدد فراہم کی جارہی ہے۔ مارک پیری نے جنداللہ کا تعلق سی آئی اے کی بجائے موساد سے جوڑ دیاا ور کچھ عرصے کے بعد یہ دعویٰ بھی کردیا کہ اسرائیل نے آذربائیجان میں ایرانی سرحد کے پاس خاموشی سے کچھ فوجی اڈے حاصل کرلئے ہیں۔ مارک پیری نے موساد کے ایجنٹوں کی طرف سے امریکی پاسپورٹوں کے استعمال کے بارے میں تحقیق 2010میں شروع کی تھی جب برطانوی حکومت نے الزام لگایا تھا کہ موساد کے ایجنٹ برطانوی پاسپورٹ استعمال کرکے دبئی گئے جہاں19جنوری2010کو ایک ہوٹل میں حماس کے ایک رہنما کو قتل کردیا گیا۔
اس واقعہ کے کچھ ہفتوں کے بعد23فروری2010کو عبدالمالک ریگی دبئی سے کرغزستان روانہ ہوا تو ایران کو کیسے پتہ چل گیا کہ امارت ائیر لائنز کی پرواز میں جنداللہ کا کمانڈر انچیف افغان پاسپورٹ پر سفر کررہا ہے؟ کیا یہ کسی طاقتور خفیہ ادارے کی طرف سے موساد کو پیغام تھا کہ ہمارا نام استعمال کرنا بند کردو ورنہ ہم تمہارا بھانڈا پھوڑ دیں گے؟ عبدالمالک ریگی کی گرفتاری اور مارک پیری کے مضمون سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اکثر اوقات طاقتور خفیہ ادارے سب جانتے ہیں کہ کب اور کون مطلوب شخص کہاں سے کون سے ملک کے پاسپورٹ پر کدھر کو سفر کررہا ہے لیکن یہ خفیہ ادارے اپنی اپنی مصلحتوں کے تحت خاموش رہتے ہیں۔ مطلوب افراد کی شناخت کو اسی وقت بے نقاب کیا جاتا ہے جب کسی کو کوئی پیغام دینا مقصود ہو۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان کو ایک پیغام دینا تھا۔ نریندر مودی یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ اگر پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی تحریک آزادی کی حمایت بند نہ کی تو بھارت بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی حمایت کرے گا۔ انہوں نے غلطی یہ کی کہ مغربی ممالک میں موجود کچھ بلوچ علیحدگی پسندوں سے تقاضا کیا کہ وہ مودی کے بیان کی حمایت کے ساتھ ساتھ کشمیر میں تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دیں۔ براہمداغ بگٹی اور دو خواتین نے مودی کے حکم پر من و عن عملدرآمد کیا لیکن تین بلوچ رہنمائوں نے مودی کے حق میں بیان دینے سے انکار کردیا۔ انکار کرنے والوں کا مؤقف تھا کہ ہمیں مودی کا شکریہ ادا کرنے میں کوئی تامل نہیں لیکن ہم کشمیریوں کی تحریک آزادی کی مذمت کرکے خود کو بھارتی خفیہ اداروں کا زرخرید غلام کیوں ثابت کریں؟ کیا پاکستان سے آزادی مانگنے کا مطلب بھارت کی غلامی ہے؟ مودی کے بیان کی کچھ بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے حمایت اور کچھ کی طرف سے اس بیان پر خاموشی انتہائی قابل غور ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کا ایک گروپ مودی کو ناقابل اعتبار سمجھتا ہے، کیونکہ مودی بیک وقت ایران، اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ دوستی کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف ہیں جبکہ یہ گروپ پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کو متحد کرکے نئی ریاست بنانے کے خواب دیکھتا ہے۔
میری ذاتی معلومات کے مطابق نریندرمودی کے 15اگست 2016کے بیان نے ایران کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں کھلبلی مچادی ہے۔ امریکی اسکالر کرسٹین فیئر نے مارچ2009میں فارن پالیسی میگزین میں لکھا تھا کہ ایرانی بلوچستان کے شہر زاہدان میں بھارتی قونصلیٹ پاکستانی بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو پیسہ بھیج رہا ہے لیکن پاکستان کے پاس بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہ تھا۔ پاکستانی اداروں نے بلوچستان سے ایک بھارتی جاسوس کلبوشن یادیو کی گرفتاری کو بہت بڑا بریک تھرو قرار دیا لیکن اس گرفتاری کے باوجود بلوچستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک نہیں توڑا جاسکا۔ 8اگست کو کوئٹہ میں ہونے والے ایک بم دھماکے نے پاکستانی اداروں کے بڑے بڑے دعوئوں اور کارکردگی کے متعلق بہت سے سوالات پیدا کردئیے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے اس بم دھماکے کا ذمہ دار’’را‘‘ کو قرار دیا جبکہ داعش اور طالبان کے ایک گروپ نے بھی اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ متضاد دعوئوں نے بہت کنفیوژن پیدا کررکھی تھی لیکن نریندر مودی کے بیان نے بلوچستان میں آئندہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو’’را‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ اس بیان کے بعد ایران میں بھی یہ سوچا جارہا ہے کہ مودی ایران کا دوست ہے یا دشمن؟ کہیں بھارتی اور اسرائیلی خفیہ ادارے مل کر پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان میں کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہے ؟ کیا مودی نہیں جانتے کہ جند اللہ نے چابہار میں کئی حملے کئے ہیں اور یہ وہی علاقہ ہے جہاں بھارت کی طرف سے ایک بندرگاہ تعمیر کی جارہی ہے؟ کہیں بندر گاہ تعمیر کرنے کی آڑ میں تخریب کاری کے منصوبے تو نہیں بن رہے؟
نریندر مودی کا 15اگست کا بیان ان کی زندگی کی بڑی سیاسی غلطیوں میں سے ایک شمار کیا جائے گا لیکن اہل پاکستان کو یہ قطعاً نہیں سمجھنا چاہئے کہ مودی کے اعتراف جرم کے بعد بلوچستان میں سب مسائل ختم ہوجائیں گے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ عوام کی اکثریت علیحدگی پسندوں کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ پاکستان اور ایران کو توڑ کر ایک نیا ملک بنانا بہت مشکل ہے لیکن بلوچوں کا احساس محرومی ایک حقیقت ہے جس سے ا نکار پاکستان سے محبت نہیں دشمنی ہے۔ جب تک یہ احساس محرومی ختم نہیں ہوگا تو پاکستان کے دشمنوں کو بلوچستان میں سازشوں کے جال بچھانے کے لئے مقامی افراد دستیاب رہیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی کو15اگست کا بیان دینے پر کس نے مجبور کیا؟ کیا یہ پاکستانی وزیر اعظم کے کسی بیان کا ردعمل تھا؟ بالکل نہیں۔ مودی کو یہ بیان دینے پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کی طویل ترین ہڑتال نے مجبور کیا اور اسی ہڑتال کے باعث مودی اور براہمداغ بگٹی کا تعلق بے نقاب ہوا۔ کیا پاکستانی عوام اس مودی کو سارک کانفرنس کے موقع پر پاکستان آکر ایک اور تقریر کرنے کی اجازت دیں گے؟

Comments

Click here to post a comment