ہوم << مودی کو بلوچستان کا کرارا جواب-انصار عباسی

مودی کو بلوچستان کا کرارا جواب-انصار عباسی

Ansar-Abbasi-1
نریندر مودی کو بلوچستان کی عوام نے خوب منہ توڑ جواب دیا۔ بلوچستان کے متعلق مودی کے حالیہ متنازعہ بیان پر جس طرح صوبہ بھر میں عوام باہر نکلے اور پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کیا اس نے بہت سوں کی غلط فہمی دور کر دی ہو گی۔ صوبہ بھر کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے ہندوستان کے خلاف سخت احتجاج کیا اور مودی کے پتلے جلائے۔ کہیں کوئی ایک آواز ایسی نہ تھی جو مودی یا بھارت کے حق میں سنائی دی گئی ہو۔ ہاں توقع کے مطابق ہزاروں میل دور یورپ میں بیٹھ کر پاکستان دشمن قوتوں کی ایما پربلوچستان میں آگ بھڑکانے کی کوشش کرنے والے براہمداغ بگٹی نے مودی کے بیان کو ضرور سراہا لیکن صوبہ کے عوام نے بلند آواز میں پاکستان سے غداری کی بجائے اس سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار کیا اور جگہ جگہ قومی پرچم لہرائے ۔
پاکستان سے محبت بلوچستان کے لوگوں کے خون میں رچی بسی ہے۔قیام پاکستان کے وقت بھی بلوچستان کے عوام کو بہت لالچ دی گئی کہ پاکستان کی بجائے ہندوستان کے حق میں فیصلہ دیں لیکن انہوں نے آج کی طرح اُس وقت بھی ہندوستان اور اُس کی نمائندہ جماعت اور اُن کے ایجنٹوں کو مایوس کیا۔اُس وقت کے حالات کے بارے میں ’’تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ۔ سر سید سے قائد اعظم تک‘‘ میں بلوچستان کے ایک نواب کے حوالے سے کچھ یوں لکھا گیا:
’’ہمارے چند نام نہاد مسلمان جو کانگریس کے ہاتھوں بک چکے ہیں، کئی روز سے انہوں نے معزز سرداروں کی موجودگی میں میرے سامنے یہ پیشکش کی کہ اگر بلوچستان کے سردار پاکستان کی اسلامی حکومت کا ساتھ نہ دیں اور ہندوئوں کی سلطنت قبول کر لیں تو کانگریس اس کفر کی غلامی کے عوض میں کئی کروڑ روپیہ ہم پر تقسیم کرنے کو تیار ہے اور اس قسم کا تحریری وعدہ پنڈت نہرو کی طرف سے .... خان پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ بلوچستان کے غیور افغان اور بلوچ سرداروں کا ایمان سونے سے نہیں خریدا جا سکتا۔ ہندو ساہو کاروں کے تمام حرام خزانے ہمارے ایک معمولی بلوچ اور پٹھان کا ایمان بھی نہیں خرید سکتے۔ یہ سن کر .... خان مایوس ہو کر چلے گئے۔ ہندو کانگریس نے سندھ ، پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کی آزادی روپیے سے خریدنا چاہی لیکن اسے وہاں سخت ذلیل ہونا پڑا۔ بلوچستان میں بھی یہ اسی قسم کی شرارت کر رہی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ بلوچستان کو دوسرے اسلامی صوبوں سے کاٹ کر سکھ اور گورکھا فوجوں کے غلبہ کے نیچے رکھا جائے اور پھر یہاں نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان اور ایران تک بھارت ماتا کا جھنڈا گاڑا جائے۔ میں پبلک کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان۔ پاکستان کا رخ مکہ مکرمہ کی طرف اورہندوستان کا بنارس کے بت خانے کی طرف۔اگر .... خان بنارس جانا چاہیں تو شوق سے جائیں ہم بلوچستان کے مسلمان کفر کے راستے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ راہ صرف ایک ہی ہے خانہ کعبہ کی راہ۔‘‘
کچھ بکنے والوں کو چھوڑ کر ماضی کی طرح آج بھی بلوچستان کی اکثریت پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ ہاں ان کے گلے شکوے ہوں گے، ان کے دل بھی دکھے ہوں گے لیکن کوئی لالچ، کوئی بہکاوا ان کے دل میں پاکستان دشمنی پیدا نہیں کر سکتا۔یہ بات درست ہے کہ بلوچستان کے عوام کو جو حق ملنا چاہیے تھا وہ اُنہیں نہیں ملا جس کی وجہ سے وہاں ایک احساس محرومی پایا جاتا ہے جس کو دشمن اپنے مقاصد کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان کے اس احساس محرومی کی ذمہ داری وفاق کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں پر بھی برابر آتی ہے جن کو بار بار حکومت میں اعلیٰ ترین عہدے ملے لیکن انہوں نے بلوچستان کی پسماندگی کو دور کرنے اور عوام کو بنیادی سہولتیں دینے کی طرف کوئی توجہ نہ دی بلکہ ان میں سے اکثر صوبہ کی ترقی میں رکاوٹ ہی بنے رہے۔
پاک چائنا راہداری منصوبہ دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس منصوبہ سے صوبہ کی قسمت بدلنے کے روشن امکانات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مودی سمیت پاکستان کے دشمن اس منصوبہ کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ریاست اور اس کے تمام اداروں کو ماضی کی اپنی کوتائیوں اور کمزوریوں کو دور کر کے مل کر بلوچستان کی تقدید بدلنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت اور فوج اس بات کو یقینی بنائیں کہ صوبہ بلوچستان کا بجٹ عوام پر خرچ ہو نہ کہ کچھ مخصوص جیبوں میں چلا جائے۔ اس کے لیے کوئی اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی جائے یا کوئی اور سسٹم، عوام کا پیسہ عوام کی فلاح کے لیے خرچ کرنے کی فوری تدبیر کی جائے۔
موجودہ صورتحال میں صوبائی سرکاری مشینری میں چیک اینڈ بیلنس سسٹم نہایت کمزور ہے اور یہی وجہ تھی کہ ایک سرکاری افسر کے گھر سے ستر اسی کروڑ روپیے کیش برآمد ہوئے۔ بلوچستان کے بارے میں ماضی قریب میں ایک خبر شائع ہوئی جس کے مطابق اربوں روپیے کے ترقیاتی فنڈ سرکاری محکموں کے ذریعے ترقیاتی اسکیموں پر خرچ کرنے کی بجائے، سیدھے سیدھے منتخب نمائندوں کو دے دیئے جاتے ہیں۔ جس کی مرضی ہو، دل چاہے تو خرچ کرے ورنہ جیب میں ڈال دے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والی بلوچستان کے عوام ایسے رویوں کی مستحق نہیں۔

Comments

Click here to post a comment