ہوم << سید عطااللہ شاہ بخاری، ایک نام ایک عہد - مہران درگ

سید عطااللہ شاہ بخاری، ایک نام ایک عہد - مہران درگ

سید عطاءاللہ شاہ بخاری اک نام اک نسب اک عہد اک صوفی اک درویش، فصاحت وبلاغت میں آج کے دور کے ابو موسیٰ اشعری، حق بات کہوں تو آل دائود کی نغمگی انھیں عطا کی گئی تھی. جن کی بلند آواز، کاٹ دار جملے، برمحل، برجستگی جوں رود دجلہ کا کنارہ، جس کے آگے پل باندھنا سورج کو انگلی دکھانے کے مترادف تھا، ختم نبوت کے طرے جبہ و دستار کا امین، مرد جرار مرد حر! 1891 میں پٹنہ میں پیدا ہوئے، گھر، گجرات اور پاکستانی سیاست میں ’’پنڈت کرپا رام برہمچاری، امیر شریعت اور ڈنڈے والا پیر‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے! آپ فرماتے تھے کہ ’’میری آدھی عمر جیل میں گزری آدھی عمر ریل میں‘‘ فتنہ قادیانیت کے خلاف نعرہ مستانہ مار کے منبر پہ چڑھے تو بولے، ’’ختم نبوت کی حفاظت میرا جزو ایمان ہے، جو شخص بھی اس ردا کو چوری کرے گا، جی نہیں چوری کا حوصلہ کرے گا، میں اس کے گریبان کی دھجیاں بکھیر دوں گا۔ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کا نہیں، اپنا نہ پرایا، میں انہی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوں، وہی میرے ہیں، جن کے حسن و جمال کو خود ربِ کعبہ نے قسمیں کھا کھا کر آراستہ کیا ہو، میں ان صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال پر نہ مر مٹوں تو لعنت ہے مجھ پر اور لعنت ہے ان پر جو ان صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو لیتے ہیں لیکن سارقوں (چوروں) کی خیرہ چشمی کا تماشہ دیکھتے ہیں۔‘‘
والد صاحب فرماتے ہیں کہ مظفر گڑھ میں شاہ جی کا جلسہ منعقد ہوا، پنڈال سجا، آپ آئے، ساتھ میں اپنا نشان ٹوکہ ساتھ رکھ رکھا تھا، تقریر کاآغاز کیا مگر پولیس نے دھرلیا، اک عرصہ بعد جوں رہا ہوئے، سیدھا اسی پنڈال پہ پہنچے، ویسا ہی جم غفیر تھا، سٹیج پہ چڑھے، ٹوکہ لہرایا اور بولے!
’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا‘‘
( یعنی ایسا لامتزلزل شخص کہ جہاں تقریر چھوٹی تو وہیں سے آکر شروع کی!)
لاہور میں ہجوم سے مخاطب ہوئے تو کہنے لگے
’’مسلمین ! ختم نبوت کے عقیدہ کو یوں سمجھو جیسے یہ ایک مرکزِ دائرہ ہے جس کے چاروں طرف توحید، رسالت، قیامت، ملائکہ کا وجود، صحف سماوی کی صداقت، قرآنِ کریم کی حقانیت و ابدیت، عالم قبر و برزخ، یوم النشور یوم الحساب گردش کرتے ہیں۔ اگر یہ اپنی جگہ سے ہل جائے تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ دین نہیں بچے گا، بات سمجھ میں آئی؟ مزید سمجھیے، جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں، اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ مسعود پر ختم ہو جاتا ہے۔ آپ کی نبوت و رسالت وہ مہر درخشاں ہے جس کے طلوع کے بعد اب کسی روشنی کی مطلق ضرورت نہیں رہی، سب روشنیاں اسی نور اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں مدغم ہو گئی ہیں جبھی تو مخبرصادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں زندہ ہوتے تو انھیں بھی بجز میری اتباع کے چارۂ کار نہ ہوتا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آخر زمانہ میں تشریف لائیں گے تو نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ابوبکر و عمر کی طرح امتی اور خلیفہ کی حیثیت سے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص بھی ختم نبوت کے تخت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا، ہم اس پر قہر الٰہی اور صدیق اکبر کا انتقام بن کر ٹوٹ پڑیں گے۔‘‘
راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے ،
’’اللہ بیٹوں کو بھی سلامت رکھے، مگر بیٹی سے مجھے محبت بہت ہے اس نے کئی بار مجھے کہا ابا جی! اب تو اپنے حال پر رحم کریں، آپ کو چین کیوں نہیں آتا، کیا آپ سفر کے قابل ہیں، چلنے پھرنے کی طاقت آپ میں نہیں رہی، کھانا پینا آپ کا نہیں رہا، یہ آپ کا حال ہے، کیا کر رہے ہیں آپ؟ میں نے کہا!
تم نے میری دُکھتی رَگ پکڑی ہے، میں تمھیں کس طرح سمجھائوں؟ بیٹا! تم بہت خوش ہوگی اگر میں چارپائی پر مروں؟ میں تو چاہتا ہوں کسی کے گلے پڑ کے مروں۔ تم اس بات پہ راضی نہیں کہ میں باہر نکلوں میدان میں، اور یہ کہتا ہوا مر جائوں.
لا نبی بعد محمد، لا رسول بعد محمد، لا بعد امتہ بعد امتہ محمد‘‘
خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل تھے، لاہور میں پنڈال سجا ہوا تھا، شاہ جی اک طرحدار ٹوپی پہنا کرتے تھے، سامنے ہو کاعالم تھا، اک سروں کا سمندر تھا ٹھاٹھیں مارتا، امابعد ! اک ہاتھ سے اپنی ٹوپی اتاری! اور دونوں ہاتھوں میں لے کر مجمع کی طرف لہرائی، بولے خواجہ! یہ میری ٹوپی آج تلک کسی کے آگے نہیں جھکی، لے یہ میں ٹوپی تیرے قدموں میں رکھتا ہوں، میرے سائیں کی عزت بچا لے خواجہ، میں تیرے کتے نہلاؤں گا خواجہ، میرے سائیں ص! میرے سائیں کی عزت بچا لے خواجہ!
1953ء میں فسادات ہوئے تو کہا ’’میں قیامت کے دن حضور خاتم النبییّن صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر دست بستہ عرض کروں گا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے خوش نصیبوں کا مقصد صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ تھا، اس طرح 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں شہید ہونے والوں کا مقصد بھی صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ تھا۔ لہٰذا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ تحریک ختم نبوت 1953ء میں شہید ہونے والوں کو بھی یمامہ کے شہدا کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا کریں کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا۔‘‘ پھر کہا مجھے امید کامل ہے کہ میرے نانا، میرے پیارے آقا و مولا میری درخواست کو شرف قبولیت ضرور بخشیں گے۔ ’’لوگوں نے کہا کہ ان کا وبال کس پر ہے جو اس تصادم میں شہید کروا دیے گئے تو کہا کہ مسلیمہ کزاب کے خلاف جنگ میں سات سوحفاظ کرام امیر المومنین نے کیوں شہید کروا دیے تھے؟‘‘
عدالت میں حضرت کو بلوایا گیا مقدمہ کی پیروی ہونے لگی، مجمع وارفتگی سے پوچھ رہا تھا:
کہیے کیا حکم ہے؟ دیوانہ بنوں یا نہ بنوں۔
شاہ جی نے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا۔
جسٹس منیر: ہندوستان میں اس وقت کتنے مسلمان ہیں؟
شاہ جی: غیر متعلق ہے، مجھ سے پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھیں۔
جسٹس منیر: ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
شاہ جی: ہندوستان میں علما موجود ہیں، وہ بتائیں گے۔
جسٹس منیر: آپ بتا دیں؟
شاہ جی: پاکستان کے بارے میں پوچھیں، یہاں کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
جسٹس منیر: مسلمان کی تعریف کیا ہے؟
شاہ جی: اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کے لیے صرف کلمہ شہادت کا اقرار و اعلان ہی کافی ہے۔ لیکن اسلام سے خارج ہونے کے ہزاروں روزن ہیں۔ ضروریاتِ دین میں کسی ایک کا انکار کفر کے ماسوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے کسی ایک کو بھی انسانوں میں مانا تو مشرک، قرآن کریم کی کسی ایک آیت یا جملہ کا انکار کیا تو کافر، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت کے بعد کسی انسان کو کسی بھی حیثیت میں نبی مانا تو مرتد۔
جسٹس منیر: (قادیانی وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
شاہ جی: خیال نہیں عقیدہ۔ جو ان کے بڑوں کے بارے میں ہے۔
مرزائی وکیل: نبی کی تعریف کیا ہے؟
شاہ جی: میرے نزدیک اسے کم از کم ایک شریف آدمی ہونا چاہیے۔
جسٹس منیر: (بدتمیزی کے انداز میں) آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟
شاہ جی: میں اس سوال کا آرزو مند تھا۔ کوئی بیس برس ادھر کی بات ہے، یہی عدالت تھی جہاں آپ بیٹھے ہیں، یہاں چیف جسٹس، مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھے۔ اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں، یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔ وہی جواب آج دہراتا ہوں۔ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ، مرزا کو کافر کہا ہے، کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں گا کافر کہتا رہوں گا۔ یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے اور اسی پر مرنا چاہتا ہوں۔ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعویٰ نبوت کے جرم میں قتل کیا گیا۔
جسٹس منیر: اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو آپ اسے قتل کر دیتے؟
شاہ جی: میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے!
حاضرین عدالت: نعرۂ تکبیر !
جسٹس منیر: (بوکھلا کر) توہین عدالت…
شاہ جی! (جلال میں آ کر) توہین رسالت…!
جسٹس منیر: ( خاموش)
’’عدالت‘‘ امیر شریعت کی جرات ایمانی اور جذبہ حب رسولصلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر سکتے میں آ چکی تھی۔
شاہ جی: (گرج دار آواز میں) کچھ اور…؟
جسٹس منیر: ! عدالت برخواست کی جاتی ہے۔
21 اگست 1961 کو یہ مرد حُر نہ رہا!
تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں آئندہ رہوں گا

Comments

Click here to post a comment