ہوم << کارٹون اور بچے - حیدر مجید

کارٹون اور بچے - حیدر مجید

کارٹون ہمیشہ سے بچوں کے لیے دلچسپی کا باعث رہے ہیں. موجودہ دور میں بننے والے کارٹون بچوں کے لیے Entertainment کا ذریعہ ہی نہیں رہے بلکہ بچے ان سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔ جن میں بہت کم اچھی اور بے شمار بےہودہ چیزیں موجود ہیں، جو بچوں کی سوچ پر اثر انداز ہو رہی ہیں. اس کی وجہ سے بچوں میں تشدد پسندی، غیراسلامی ثقافت، رسم و رواج اور اخلاقی اقدار سے دوری فروغ پا رہی ہے اور بچے کارٹون فلموں میں غیر حقیقی چیزیں دیکھ کر ان چیزوں کو حاصل کرنے کی خواہش کرنے لگتے ہیں جس کا اظہار اکثر اپنی باتوں میں کرتے ہیں۔
بچوں کے کارٹون میں Subliminal massage استعمال ہوتا ہے۔ Subliminal massage آواز ، تصاویر یا الفاظ میں چھپے ہوئے وہ پیغامات ہوتے ہیں جنہیں عام دیکھنے والا بعض اوقات محسوس نہیں کر سکتا، جو دماغ میں جا کر اثرانداز ہوتے ہیں اور فرد کی سوچ یا عمل کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال بہت سے کارٹون پروگراموں میں ہو رہا ہے۔ ڈورے مون کو ہی دیکھ لیں۔ ڈورے مون میں مختلف قسم کے کردار دکھائے جاتے ہیں جس میں ایک بچہ نوبیتا اور اس کا ساتھی ڈورے مون اہم کردار ہیں۔ نوبیتا کو ایک کمزور لڑکا دکھایا گیا ہے جو ہر مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنے ساتھی روبوٹ ڈورے مون کے معجزے والے گیجٹ پر انحصار کرتا ہے۔ دوسرے کرداروں میں جیان اور سونیو جو نوبیتا کو تنگ کرتے ہیں ان کے سامنے خود کو بہتر ثابت کرنے کے لیے نوبیتا ڈورے مون کے گیجٹ کا استعمال کرتا ہے۔
گزشتہ دنوں تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں ڈورے مون پر پابندی کے حوالے سے قرارداد جمع کروائی گئی ہے ، جو ایک احسن قدم تھا مگر اس طرف کوئی عملی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان تمام کارٹونز اور پروگرامز پر پابندی لگائی جائے جو بچوں پر منفی اثرات ڈالتے ہیں اور ان کی تعلیمی و جسمانی سرگرمیاں متاثر کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
موجودہ نسل اور نئی آنے والی نسل خصوصاَ مسلمان بچوں کے لیے اچھے اور معیاری کارٹون وقت کی ضرورت ہیں جو Enterrainment کے ساتھ ان کی اچھی تربیت کر سکیں، جیسا کہ عبدالباری کے نام سے اور MIS کی نگرانی میں بننے والے کارٹون شامل ہیں جن کے ذریعے بچوں کو دعائیں اور اخلاقی سبق سکھائے جاتے ہیں۔ جہاں دیگر مسائل کے بارے میں سوچا جا رہا ہے وہاں حکومت، تعلیمی اداروں، استائذہ، والدین اور اہلِ علم کو اس بات پر توجہ دینی ہو گی کہ تفریح کے اس مروجہ طریقے کو کس طرح جائز انداز مین پیش کیا جائے، حدود کا تعین کیا جائے اور دائرہ کے اندر رہتے ہوئے مثبت قدم اٹھائے جائیں؟ اس کی تگ و دو ہم سب کو مل کر کرنا ہو گی ورنہ ہماری نسل کے بگڑنے اور ذہنی طور پر مفلوج ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔

Comments

Click here to post a comment