ہوم << اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں-حامد میر

اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں-حامد میر

hamid_mir1
بہت سے لوگ مجھے پوچھتے ہیں کہ پرویز مشرف کے متعلق آپ کا لہجہ اکثر تلخ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ میرا ہمیشہ یہی جواب ہوتا ہے کہ مشرف صاحب سے میری کوئی ذاتی پرخاش نہیں۔ میری ان کے ساتھ شناسائی اس وقت شروع ہوئی جب وہ کور کمانڈر منگلا تھے۔ جس زمانے میں چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف انہیں آرمی چیف بنوانے کیلئے لابنگ کررہے تھے تو حمید اصغر قدوائی صاحب نے مجھے بھی اس لابنگ میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ قدوائی صاحب کو یہ خوش فہمی تھی کہ مشرف صاحب کبھی مارشل لا نہیں لگائیں گے لیکن آرمی چیف بننے کے بعد مشرف صاحب نے مجھ جیسے صحافیوں کے ساتھ دل کی باتیں کرنا شروع کیں تو اندازہ ہوا کہ نوازشریف انہیں آرمی چیف بنا کر اپنے پائوں پر کلہاڑی مار چکے ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب نوازشریف حکومت بیک وقت عدلیہ، میڈیا، اپوزیشن جماعتوں اور فوج کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب 12اکتوبر 1999ء کو نوازشریف حکومت کو ہٹایا گیا تو فوج نے اسمبلیاں ختم نہیں کیں اور پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو اسمبلیاں ختم کردی گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پہلے ہی جلا وطن تھیں کچھ عرصے بعد نوازشریف بھی سعودی عرب چلےگئے اور غداری کے مقدمات بھگتنے کیلئے مسلم لیگ (ن) کو جاوید ہاشمی کے حوالے کردیا۔ پرویز مشرف کے ساتھ میرا پہلا براہ راست اختلاف رائے بلوچستان کے مسئلے پر ہوا۔ 2004ء میں انہوں نے مجھے جیو نیوز کے لئے انٹرویو دیا جس میں اکثر بگٹی کا نام لئے بغیر کہا کہ یہ ستر کی دہائی نہیں ہے تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کب اور کہاں سے تمہیں کون سی چیز آکر لگی ہے۔
انٹرویو ختم ہوا تو میں نے مشرف صاحب سے کہا کہ آپ کا یہ انٹرویو بلوچستان میں نفرتوں کی نئی آگ لگا سکتا ہے آپ کو محتاط لہجہ اختیار کرنا چاہئے لیکن مشرف صاحب طاقت کے نشے میں سرشار تھے۔ ان کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی بلوچستان میں طاقت کے استعمال کے خلاف تھے لہٰذا ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ 2006ء میں بلوچستان کے بزرگ سیاسی رہنما اکبر بگٹی ایک کارروائی کا نشانہ بن گئے جس کے بعد بلوچستان میں احتجاج شروع ہوگیا۔ اسی سال پرویز مشرف کی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ منظر عام پر آئی جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے 369 افراد کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا اور کروڑوں ڈالر کی انعامی رقم حاصل کی۔ ان کے اس اعتراف کے بعد راولپنڈی کی ایک خاتون آمنہ مسعود جنجوعہ لاپتہ افراد کی آواز بن کر سڑکوں پر آگئیں۔
قومی اسمبلی میں اس خاتون کے حق میں پہلا بیان عمران خان اور خواجہ محمد آصف نے دیا۔ 2007ء میں آمنہ مسعود جنجوعہ اور عمران خان نے جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ شروع کیا تو مشرف کے حامیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم دہشت گردوں کے وکیل بن گئے ہیں اور ہم ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ پھر میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان میں لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھانی شروع کی۔ ڈاکٹر مالک نے یہی گفتگو کیپٹل ٹاک میں کی تو حب الوطنی کے ٹھیکیداروں نے یہ الزام لگا دیا کہ ہم بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بات کرتے ہیں لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر کے لاپتہ افراد کی بات نہیں کرتے۔ میں نے بار بار یہ کہاکہ مقبوضہ کشمیر اور بلوچستان میں بہت فرق ہے ان کا آپس میں موازنہ نہیں ہوسکتا لیکن غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی کی بات کرنے والوں کو بھارتی ایجنٹ قرار دیکر نجانے کس کو خوش کر رہے تھے حالانکہ پاکستان میں سب سے زیادہ لاپتہ افراد خیبرپختونخوا اور سندھ میں ہیں بلوچستان میں نہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر اور بلوچستان میں صرف ایک چیز مشترک ہے۔ کشمیریوں اور بلوچوں کی اکثریت پرویز مشرف سے سخت ناراض ہے۔ کشمیر کی حریت پسند قیادت مشرف کو تحریک آزادی کا دشمن سمجھتی ہے اور بلوچوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ مشرف دور میں بلوچستان کو پاکستان کے قومی دھارے سے نکال کر خانہ جنگی میں جھونک دیا گیا۔ مشرف دور میں جو بھی بلوچستان میں ناانصافی کے خاتمے کی بات کرتا تھا وہ غدار کہلاتا تھا اور اسے یہ سننا پڑتا تھا کہ تم بلوچستان میں ظلم کی بات کرتے ہو لیکن مقبوضہ کشمیر میں ظلم پر کیوں خاموش ہو؟ آج بھارت کا وزیراعظم نریندر مودی بھی وہی باتیں کررہا ہے جو مشرف کے حامی کیا کرتے تھے۔ مودی نے 15 اگست کو ایک تقریر میں کہا ہے کہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت کے لوگوں نے وہاں ہونے والے ظلم کیخلاف آواز اٹھانے پر میرا شکریہ ادا کیا ہے۔ کچھ جلاوطن بلوچ رہنمائوں نے مودی کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے لیکن بھارت میں مودی کے اس بیان پر بہت تنقید ہورہی ہے۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں نیروپوما سبرامنیم نے لکھا ہے کہ کشمیر اور بلوچستان کا کوئی موازنہ نہیں ہوسکتا، کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک تنازع ہے جبکہ بلوچستان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔
اس خاکسار نے بلوچستان میں ریاستی جبر اور ناانصافی کی ہمیشہ مذمت کی ہے اور بلوچوں کو ان کے سیاسی و آئینی حقوق دینے کا مطالبہ کیا ہے میں اپنے موقف پر بدستور قائم ہوں لیکن بھارتی وزیراعظم مودی نے بلوچستان اور مقبوضہ کشمیر کا موازنہ کر کے بلوچوں کے حقوق کی بات کرنے والوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ سب جانتے ہیںکہ 1947ء میں ایک مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کا حکمران ہری سنگھ غیر مسلم تھا۔ اس نے لارڈ مائونٹ بیٹن اور نہرو کی ملی بھگت سے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا لیکن الحاق کی اس دستاویز کو پریم شنکر جھا جیسے بھارتی مصنفین نے متنازع قرار دیا ہے۔ دوسری طرف 29جون 1947ء کو بلوچستان کے شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپلٹی نے بغیر کسی جبر کے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ اکبر بگٹی سمیت دستور ساز اسمبلی کے رکن نواب محمد خان جوگیزئی اور میر جعفر خان جمالی نے بھی پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔
ریاست مکران کے حکمران میر اعظم خان بلوچ، ریاست خاران کے حکمران نواب حبیب اللہ نوشیروانی اور لسبیلہ کے حکمران جام میر غلام قادر نے بھی اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی البتہ قلات کی ریاستی اسمبلی نے 15اگست 1947ء کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ آزادی کے حق میں تقریر کرنے والوں میں میر غوث بخش بزنجو بھی شامل تھے لیکن سات ماہ کے بعد خان آف قلات نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔ کچھ لوگوںکے خیال میںیہ اعلان پاکستان کے ریاستی دبائو کا نتیجہ تھا لیکن مت بھولئے کہ قلات کی جس ریاستی اسمبلی نے آزادی و خودمختاری کا اعلان کیا تھا اسی اسمبلی کے ارکان نے بعد میں پاکستان کی بقاء اور سالمیت کیلئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ میرغوث بخش بزنجو نے شیخ مجیب الرحمان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ خدارا پاکستان مت توڑو۔ آج ان کا بیٹا میر حاصل بزنجو سینیٹ کا رکن اور وفاقی وزیر ہے۔
مقبوضہ جموںو کشمیر کے تنازع کو بھارت اقوام متحدہ میں لیکر گیا اوراس پر سلامتی کونسل کی قراردیں موجود ہیں۔ بلوچستان کے بارے میں ایسی کوئی قرارداد نہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 نے اسے خصوصی حیثیت دی ہے۔ غیر کشمیری مقبوضہ ریاست میں زمین نہیں خرید سکتے۔ بلوچستان کے بارے میں پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی دفعہ نہیں۔ کشمیر پر پاکستان اور بھارت میں تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ بلوچستان پر ایسی کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند قیادت کشمیر میں موجود ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند لیڈروں کی اکثریت بیرون ملک بیٹھی ہے اور بھارت کو خوش کرنے کیلئے کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے حالانکہ یہ تحریک 1947ء سے نہیں 1931ء سے جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے بلوچستان میں ناراض عناصر کی موجودگی سے انکار نہیں لیکن وہ بھارت کا پرچم نہیں لہراتے۔ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو ویسی عوامی تائیدو حمایت حاصل نہیں جو کشمیر کی حریت پسند قیادت کو حاصل ہے۔ مودی نے بلوچستان کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت سے نیک تمنائوں کی وصولی کا دعویٰ کر کے اپنے جھوٹ کا خود ہی پول کھول دیا۔
مقبوضہ کشمیر میںسید علی گیلانی، آسیہ اندرابی اور دیگر آزادی پسند روزانہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں مودی صاحب بلوچستان، آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان میں موجود کسی ایک شخص کا نام بتا دیں جو بھارت سے الحاق کا حامی ہو؟ مودی کا یہ بیان دراصل بھارت کے خلاف ایک چارج شیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئندہ بلوچستان، آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آیا تو دنیا یہ یقین کرنے میں حق بجانب ہوگی کہ اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے کیونکہ مودی کے بیان کے بعد مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔