ہوم << ضیاء الحق اعصاب پر سوار کیوں؟ - ارشد اللہ

ضیاء الحق اعصاب پر سوار کیوں؟ - ارشد اللہ

آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ آخر جنرل ضیاءالحق کا وہ جرم کیا ہے جس کی وجہ سے سیکولر لابی انھیں کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں؟ روزانہ نت نئے الزامات کی گردان سیکولر لابی کا مرغوب مشغلہ ہی نہیں بلکہ ماضی کی ناآسودگی کا آئینہ دار بھی ہے. جنرل ضیاء الحق کا ذکر آتے ہی یار دوست ناک بھوں چڑھانے کے بعد دنیا کو درپیش تمام مسائل اور خطرات ان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ان چیزوں کی ذمہ داری بھی ان پر ڈال دی جاتی ہے جو ان کی پیدائش سے پہلے رونما ہوئیں۔ اس روش سے گمان ہوتا ہے کہ شاید بابا آدم سے آج تک تمام معاملات میں خرابی کا ذمہ دار ضیاء الحق ہے. سیکولر لابی کی تاریخ اسی سے شروع ہو کر انھی پر ختم ہو جاتی ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کون سے کردہ و ناکردہ گناہ تھے جو ضیاءالحق سے پہلے اور بعد کے لوگوں نے بھی انجام دیے لیکن ’’تعریف‘‘ صرف ضیاء کے حصے میں آئی۔
اگر آئین توڑنا جرم ہے تو یہ کارنامہ ایوب خان و یحییٰ خان پہلے انجام دے چکے تھے جبکہ بعد میں جنرل مشرف بھی اسی آئین و قانون شکنی کے مرتکب ہوئے۔ ان پر تبرا بازی کیوں نہیں؟ بلکہ ان کی تعریف کی جاتی ہے، ضیاء الحق پر اعتراض کرنے والے تو مشرف کے دست و بازو رہے اور ان کے زور پر قوانین میں تبدیلی کے ذریعے اپنی خواہشات پوری کرنی چاہیں. ان آمروں کی اعانت کرنے والے مثلا بھٹو جو 8 سال تک ایوب خان کی گود میں بیھٹے اور انھیں ڈیڈی کہہ کر پکارتے رہے یا نوازشریف، جنھیں خود ضیاء الحق اپنی عمر لگنے کی دعائیں دیتے رہے اور نوازشریف ان کی برسیوں پر ان کا مشن پورا کرنے کا اعلان کرتے رہے۔
اگر ملک کی حفاظت کے لیے جنگ کا محاذ گرم کرنا جرم ہے تو یہ جرم تو خود بابائے قوم کے ہوتے ہوئے اس وقت سرزد ہوا جب کشمیر میں قبائل داخل ہوئے اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا علاقہ آزاد کروا لیا، ایوب خان سے بھی یہ جرم سرزد ہوا، اور جو 65ء کی جنگ کی بنیادی وجہ بنا. 71ء میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا، بنگالیوں کی آواز دبانے کےلیے فوجی آپریشن کا راستہ اختیار کرنے والے یحی خان اور بھٹو پر کوئی بات کرتا ہے نہ ان کی اس ہوس اقتدار کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے جس کی وجہ سے ملک ہی دولخت ہو گیا. حمود الرحمن کمیشن نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے مگر اسے منظر عام پر آنے سے روک دیا گیا۔
اگر جنرل ضیاءالحق کا جرم یہ ہے کہ اس نے سیاست کرنے والوں کو پھانسی پر چڑھایا، حالانکہ اس نے صرف بھٹو کو پھانسی دی تھی وہ بھی عدالت کے ذریعے ماروائے عدالت نہیں (عدالتی طریق کار پر بحث ہو سکتی ہے مگر حقیقت سے انکار ممکن نہیں)۔ تو یہ جرم تو ان سے پہلے اور بعد بھی ہوا جب مخالفین کو بیچ چوراہوں میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ا ذوالفقار بھٹو کے دور میں یہ سلسلہ بام عروج پر پہنچا، بغیر کسی وجہ کے مخالف سیاستدانوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد، وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق اور نواب احمد علی قصوری اسی دور میں قتل ہوئے. نواب قصوری کے قتل میں ہی عدالت نے انھیں سزائے موت سنائی۔ سیاسی مخالفین کے ساتھ جیلوں میں بدترین سلوک، پریس پر پابندی، صحافیوں کی گرفتاریاں، بلوچستان حکومت کا خاتمہ اور وہاں فوجی آپریشن بھی انھی کے دور کی یادگار ہی. بعد کے ادوار میں محترمہ بےنظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے بھی سیاسی مخالفین سے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔
اگر ضیاءالحق کا جرم یہ ہے کہ اس نے سرخ ریچھ کی پیش قدمی کو روکا (اور اصل جرم یہی ہے) تو اس میں محب وطن حلقوں کے لیے اچھنبے کی بات ہی نہیں۔ روبل کی کمائی کرنے والوں کو بےروزگار کرنا بہت بڑا جرم تھا۔کمیونزم کا پرچار کرنے اور سرخ ٹینکوں پر بیٹھ کر پشاور فتح کرنے کا خواب دیکھنے والوں کو سرمایہ دارانہ نظام کے در پر ڈالر کی بھیک مانگنے کے لیے یوں پھینک دیا کہ آج تک سمجھ ہی نہیں آئی کہ کہاں کمیونزم اور کہاں سرمایہ دارانہ نظام!
مخالفین کا بس چلے تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر آج تک تمام آفات و حادثات کا ذمہ دار جنرل ضیاءالحق کو قرار دے دیں لیکن خدا لگتی کہیے کہ کہ کیا یہ انصاف ہے؟