ہوم << ون ڈے کرکٹ میں تبدیلیوں کی ضرورت - ثاقب ملک

ون ڈے کرکٹ میں تبدیلیوں کی ضرورت - ثاقب ملک

ثاقب میں حیران ہوں. عجیب سا لگتا ہے جب پچاس اورز کے میچ میں انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے نسبتا کم بیٹنگ پچز والے ممالک میں بھی چار سو ،چار سو رنز بنتے دیکھتا ہوں. آج سے دس پندرہ سال پہلے بلکہ آج سے پانچ سال قبل بھی اس تواتر سے مار دھاڑ نہیں ہوتی تھی. ٹھیک ہے اس وقت بھی بڑے سکورز ضرور بنتے تھے مگر سال میں چند ایک ایسے ہائی سکورنگ میچز ہوتے تھے. ایسے میچز با آسانی ذہن میں رہتے تھے کیونکہ ساڑھے تین سو اور چار سو رنز بننا کوئی معمول نہ تھا. اب تو یہ لگتا ہے کہ جیسے ہر دوسرا میچ ایسے ہی ہائی سکورنگ میچز پر مشتمل ہے. معروف کمنٹریٹر اور آسٹریلیا کے سابق کپتان این چیپل کہتے ہیں کہ آئی سی سی کی ایک روزہ کرکٹ میں تبدیلیاں صرف شعبدے بازیاں ہی ہیں. اس سے کرکٹ میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ رہی. ان کے خیال میں کرکٹ میں کپتان کو محدود کیا جا رہا ہے. جتنی پابندیاں زیادہ ہوں گی اتنا ہی کپتان محدود ہو گا، اور اپنے تجربے یا صلاحیت کا زیادہ اظہار نہیں کر سکے گا. شین وارن بھی اسی خیال کے حامی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر ففٹی اوور کی کرکٹ کو بچانا ہے تو بغیر کسی پابندی کے بس پچاس اورز کھیلے جائیں یعنی کہ پاور پلے ہو نہ دائرے کے اندر اور باہر مخصوص تعداد میں فیلڈر کھڑے کرنے کی پابندی.
اس تناظر میں کچھ دلچسپ تجاویز ہم بھی پیش کرتے ہیں.
سٹریٹ اینڈ بیک فیلڈر:
کرکٹ کے ہر فارمیٹ میں بلے باز کے بالکل سامنے، بولر کے بالکل پیچھے، اور وکٹ کیپر کی عین پشت پر کوئی بھی فیلڈر کھڑا کرنے کی اجازت نہیں ہے کیوں نہ ففٹی اورز کے فارمیٹ میں چند مخصوص اورز میں، مثلا آخری دس اوورز میں وکٹ کیپر کے بالکل پیچھے اور بلے کے سامنے، بولر کی بیک پر بائونڈری یا دائرے کے اندر فیلڈر کھڑا کرنے کی اجازت ہو. یہ رول ایک نئی وکٹ ٹیکنگ آپشن میہا کرے گا کیونکہ کیپر کے پیچھے تو اکثر ایج پر ہی شاٹ جاتے ہیں جو فیلڈر نہ ہونے کی وجہ سے کیچ نہیں ہو پاتے لیکن اس رول کی مدد سے کئی بلے بازوں اور خاص کر ٹیل اینڈرز کو پھانسا جا سکتا ہے. جو بیسٹمین سیدھا ہٹ کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں ان کے لیے سیدھا بائونڈری پر فیلڈر ان کو مختلف حربے استمعال کرنے پر مجبور کرے گا. آپ کا کیا خیال ہے؟
تین بائونسرز کی اجازت:
فی الحال ففٹی اوورز میں صرف دو بائونسرز کرانے کی اجازت ہے، وہ بھی ذرا سا سر کے آس پاس ہوں تو امپائر اس کو وائڈ بال قرار دے دیتے ہیں. ہونا یہ چاہیے کہ ایک اوور میں ہر فاسٹ بولر کو کم سے کم تین بائونسرز کرانے کی جازت دی جائے. اور صرف سر سے کافی اوپر نہ کھیلے جانے والے باؤنسر کو ہی وائیڈ گیند قرار دیا جائے. یوں بلے بازوں کا بھی ٹیسٹ میچ کے انداز میں ٹیسٹ ہو سکے گا. یہ رول زیادہ سخت اور چیلنجنگ کرکٹ کے فروغ کا سبب بن سکتا ہے. اس سے صرف فرنٹ فٹ پر آ کر کھیلنے والے بلے بازوں کا بھی حقیقی امتحان ہو سکے گا. ایک اوور میں تین باؤنسرز باؤلرز کو نئی توانائی دیں گے.
ایکسٹرا اوورز:
آج کل تو ایک بولر ون ڈے کرکٹ میں دس اوورز ہی کرا سکتا ہے. پہلے پہل چونکہ ساٹھ اوورز کے میچز زیادہ عام تھے تو تب ایک بولر کو بارہ بارہ اوورز کرانے کی اجازت تھی. اب بھی پچاس اوورز میں بھی ایک یا دو بولرز کو بارہ بارہ اوورز کرانے کی اجازت مل جائے تو ایک نئی دلچسپی پیدا ہو جائے گی. میچ میں سنسنی خیز صورت حال پر کسی بولر کا ایسے ایکسٹرا اوور کرانا میچ کو دونوں رخ تبدیل کرنے کا سبب بن سکتا ہے. اگر دو نہیں تو کم سے کم ایک بولر کو تو لازمی دو اوورز فالتو کرنے کی اجازت دینی چاہیے. اس سے ٹیمیں اپنے اہم اور بہترین بولر کے دو مزید اوورز کو استمعال میں لا سکیں گی. یہ شائقین کے لیے بھی اچھا ہوگا اور کرکٹ کی کوالٹی پر بھی مثبت اثر پڑے گا.
ڈیڑھ نیو بالز:
اب تو پچھلے کچھ عرصے سے دونوں اینڈز سے نئی گیندوں کا استمعال ہو رہا ہے. نوے اور دو ہزار کے عشرے میں ایک ہی اینڈ سے نئی بال ہوتی تھی. صرف بانوے کے ورلڈ کپ میں دونوں اینڈز سے نئی گیندوں کا استمعال ہوا تھا. جب ایک ہی نئی بال ہوتی تھی تو ون ڈے کرکٹ میں درمیانے اور آخر کے اوورز میں ریورس سوئنگ دیکھنے کو مل جاتی تھی لیکن اس رول کی وجہ سے اب پورے پچاس اوورز تقریباً نناوے فیصد میچز میں گیند پرانی ہی نہیں ہوتی، یوں ریورس سوئنگ نہ ہونے کی وجہ سے آخری اوورز میں کھلے عام اور مزے سے بیسٹمین مار دھاڑ کرتے ہیں. یہ چیز کرکٹ کے سٹینڈرڈ کو گرا رہی ہے. دو گیندوں کا خیال سفید گیند کے بار بار خراب ہونے کی وجہ سے آیا تھا. ہمارے خیال میں پہلے دس اوورز صرف ایک ہی نئی گیند استمال کی جائے اور باقی کے چالیس اوورز میں دونوں گیندوں کو استمعال کر لیا جائے. یوں ایک گیند کل ملا کر تقریباً تیس اوورز تک پرانی ہو جائے گی اور اس کے ریورس سوئنگ ہونے کے امکانات کہیں بڑھ جائیں گے اور دوسری جانب گیند جو پہلے پہل پینتیس اوورز کے آس پاس ہی خراب ہوتی تھی اب اس کا مسئلہ بھی نہیں ہوگا. جو دوسری بال ہو گی وہ بیس اورز ہی پرانی ہو گی. یوں بولرز اور کپتان کو سوچنے اور حکمت عملی بنانے کا ایک نیا پہلو ملے گا. بیٹنگ پچز اور موٹے بلے کے ساتھ بولرز کے لیے ایسے رولز ون دے کرکٹ کو زیادہ دلچسپ اور مسابقتی بنائیں گے.
بمپر اوور:
سپر اوور تو ٹی ٹونٹی کرکٹ میں استمعال ہو ہی رہا ہے مگر یہ سپر اوور نہیں بلکہ "بمپر اوور" ہے. دونوں ٹیموں کے پاس بیٹنگ اور بولنگ دونوں اننگز میں ایک ایک بمپر اوور دیا جائے. پورے پچاس اورز میں یہ کسی بھی وقت لیا جا سکتا ہے. مقصد اس کا یہ ہو کہ اگر فیلڈنگ کپتان بمپر اوور لیتا ہے تو فیلڈنگ ریسٹریکشنز یا پابندیاں ہونے کے باوجود اگر تمام کے تمام فیلڈر بھی باہر کھڑے کرنا چاہے تو اسکو اجازت ہونی چاہے. یعنی کسی بھی قسم کی مرضی فیلڈ لے سکے. بیٹنگ ٹیم بھی جب امپائر کو بمپر اوور کی کال کرے تو وہ تمام فیلڈرز کو اندر بلا سکتی ہو یعنی کہ فیلڈنگ کپتان پابند ہو کہ بمپر اوور میں تمام فیلڈرز دائرے کے اندر ہوں. تصور کریں کہ آخری اوور میں بیس رنز درکار ہوں اور بیٹنگ ٹیم بمپر اوور لے؟؟ یا دس رنز درکار ہوں اور فیلڈنگ ٹیم بمپر اوور لے؟؟ یہ ایک خوب صورت کھیل میں بہترین اضافہ ہو سکتا ہے.

Comments

Click here to post a comment