ہوم << عبدالحفیظ کاردار سے محمدحفیظ بے کار تک! شاہد نذیر واثق

عبدالحفیظ کاردار سے محمدحفیظ بے کار تک! شاہد نذیر واثق

شاہد نذیر کرکٹ بلاشبہ پاکستانیوں کے خون میں رچ بس چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی ٹیم کی محدود اوورز کے فارمیٹ میں خوفناک حد تک تنزلی کے باوجود لوگ اب بھی یہ کھیل پورے انہماک سے دیکھتے ہیں۔ قومی کرکٹ کو اس سطح تک لانے میں سیاسی مداخلت کا اپنا کردار ہے جس نے رخنہ اندازیوں سے دیگر نفع بخش اداروں سمیت اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پی سی بی کے اہلکاروں میں اختیارات کی رسہ کشی، ٹیم میں مبینہ گروہ بندی، ٹیلنٹ کا قتل عام اور بعض منظورِ نظر کھلاڑیوں کی اجارہ داری نے اس کھیل کو محض پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا دیا ہے جبکہ شائقین آج بھی اس سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
موجودہ دور کا کرکٹر بلاشبہ ماضی کے مقابلے میں مالی لحاظ سے بہت مظبوط ہے۔ کم ازکم اس نے اتنا پیسہ کما لیا ہے کہ آخری عمر میں لٹل ماسٹر حنیف محمد کی طرح اسے علاج کے لیے کسی امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ معاوضوں پر من مانی کرنے والے کھلاڑی اپنے آپ کو دیگر ٹیموں کی طرح پیشہ ور کیوں نہیں بناتے۔ وہ اپنی بیگمات کی تفریح کے لیے تو بورڈ سے الجھ سکتے ہیں مگر پیہم مایوس کن کارکردگی سے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی؟ پاکستانی ٹیم اتنے تسلسل سے کیسے ہار جاتی ہے؟ بظاہر یہ وہ عام سا سوال ہے جس کا جواب ہر پاکستانی بیشتر مقابلوں کے بعد جاننا چاہتا ہے۔ ٹیسٹ ٹیم کی ساکھ دیگر دونوں طرز کی کرکٹ سے بلاشبہ بہت بہتر ہے مگر کارکردگی میں بے ترتیب اتار چڑھاؤ شائقین پر بہت گراں گزرتا ہے۔
اس کا آسان جواب یہ ہے کہ کسی فرد یا گروہ کا طرزِفکر ہی اس کے طرزِعمل کا تعین کرتا ہے۔ محمد حفیظ کی مثال لیں، ایشا کپ اور عالمی ٹی ٹونٹی کپ میں ٹیم فلاپ ہوئی، جس میں موصوف کا کردار اگر کسی سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ تھا۔ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے ایک نجی یونیورسٹی سے میڈیا ہینڈلنگ کی تربیت لینے چل پڑے۔ یہ کام سیاست دانوں کو زیب دیتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی ناکامیوں کا ازالہ محض قینچی جیسی زبان سے کرنا ہوتا ہے۔ ایک کھلاڑی کی زبان نہیں، ہمیشہ مہارت بولتی ہے۔ جب آپ کا بلا رنز اگلے اور بال وکٹیں گرائے تو صحافی کے سوال میں کبھی چبھن، ملامت یا مذمت کی آمیزش نہیں، بلکہ وہ ستائش ہوتی ہے جس کا مزہ یاسرشاہ نے حالیہ سیریز کے پہلے اور دوسرے ٹیسٹ میچ کے بعد چکھا۔
پاکستان ٹیم کا ناسور سلامی بلے بازی، آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں سعید انور اور عامر سہیل چھوڑ کر گئے تھے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا سب سے لاڈلا کھلاڑی محمد حفیظ کپتان اور انتخابی کمیٹی کی آنکھوں میں مسلسل دھول جھونکنے میں مصروف ہے۔ شائیقین جاننا چاہتے ہیں کہ آخر موصوف کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو اسے ٹیم سے باہر نہیں ہونے دیتی۔ باؤلنگ پر پابندی ہے، بیٹنگ انہیں آتی نہیں اور فیلڈنگ ان سے ہوتی نہیں۔ اس کھلاڑی کے ساتھ میدان میں اترنا اپنے آپ کو دس کھلاڑیوں پر محدود کرنے کے مترادف ہے۔ اگر یہ بنگلہ دیش کی ٹیم میں بھی ہوتے تو اب تک قصہ پارینہ بن چکے ہوتے لیکن نہلے پر دہلا یہ کہ موصوف کو بدترین کارکردگی کے باوجود بھی ون ڈے ٹیم کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ ٹیم کو اس وقت ایک کل وقتی آل راؤنڈر کی ضرورت ہے جو نہ صرف نحیف باؤلنگ اٹیک کی اشک شوئی کرے بلکہ کمزور ترین ٹیل کا بھی سہارا بنے۔ ایسا تبھی ممکن ہے اگر حکام روایتی انداز کو جدید طرز فکر سے بدلنے کے خواہاں ہوں۔

Comments

Click here to post a comment