ہوم << بلوچستان، میرا بھی تو ہے - آصف محمود

بلوچستان، میرا بھی تو ہے - آصف محمود

آصف محمود مودی ایسے ہی نہیں بولا۔ اس کے لہجے میں ہلاکت خیزیاں موجود ہیں۔ ہمیں ان کا ادراک کرنا ہو گا۔ ہمارا سب سے بڑا صوبہ اس حال میں ہے برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ دے۔
کاش بات صرف انہی لوگوں کی ہوتی جو بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر چلے گئے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ دکھوں اور محرومیوں کا احساس اب کے بہت گہرا ہے۔ سارا صوبہ ہی نامعتبر موسموں پر شکوہ کناں ہے۔ پہاڑوں پر کتنے لوگ ہوں گے؟ چند سو؟ یا چند ہزار؟ فرض کریں یہ لوگ پہاڑوں سے اتر آتے ہیں یا ہم تصور کر لیتے ہیں کہ یہ پہاڑوں پر کبھی گئے ہی نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں بلوچستان میں راوی چین لکھنا شروع کر دے گا، اور وہاں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی؟ اس سوال کا جواب ظاہر ہے کہ نفی میں ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ محض پہاڑوں پر گئے لوگ نہیں، اس مسئلے کی جڑیں سماج میں ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہمارے نصیب میں ایسے لاتوں کے بھوت لکھ دیے گئے ہیں، جنہیں مہذب مکالمے سے شغف ہی نہیں ہے۔ جب تک کوئی سڑک پرنہ آئے یا بندوق نہ اٹھائے ان کی موٹی کھال پر اثر ہی نہیں ہوتا۔
ہمیں اپنی نفسیاتی گرہوں کو کھولنا ہوگا۔ کیا وجہ ہے کہ کل شیخ مجیب کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی تھی اورآج ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ پوچھتے ہیں کہ تم نے مری تک تو گیس پہنچا دی مگر 80 فیصد بلوچستان آج بھی اس سے محروم ہے؟ آج بھی آپ بلوچستان چلے جائیں، آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ آپ اس عہد جدید کی کسی بستی میں کھڑے ہیں۔ وسائل کی تقسیم کا یہ حال ہے کہ گذشتہ دور میں مجھے سابق گورنر جنرل عبدالقادر بتا رہے تھے کہ ان کا حلقہ تین ہزار کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس کا ترقیاتی فنڈ انہیں مبلغ ایک کروڑ ملا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ایک حلقہ پورے خیبر پختونخواہ سے بڑا ہے۔ حالت یہ ہے کہ راولپنڈی کے نالہ لئی کا بجٹ بلوچستان کے کل بجٹ سے زیادہ تھا۔ایک دو اضلاع کو چھوڑ کر باقی کا حال یہ ہے کہ کوئی گائناکالوجسٹ نہیں ملتی۔ ذرائع آمدورفت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پورے بلوچستان میں اتنی یونیورسٹیاں نہیں جتنی صرف راولپنڈی کی مری روڈ پر ہیں۔ ہم نے عملا بلوچستان کو کب کا خود سے کاٹ کر پھینکا ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اب یہ سوتیلا پن بلوچوں کی رگوں میں زہر کی طرح اتر چکا ہے۔
سانحہ مشرقی پاکستان سے دو ماہ قبل کچھ صحافیوں کو ڈھاکہ لے جایا گیا۔ واپسی پر ایک نے لکھا’’محبت کا زمزم بہہ رہا ہے‘‘۔ نومبر میں یہ سٹوری شائع ہوئی اور دسمبر میں ملک ٹوٹ گیا۔ آج بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچستان میں محبت کا زمزم بہہ رہا ہے اور مسئلہ تو بس ان چند لوگوں کا ہے جو بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا کہنا تھا کہ آج وقت ہے، معاملہ سنبھالا جا سکتا ہے۔ معاملات تعلیمی اداروں میں نئی نسل کے ہاتھ میں جا رہے ہیں۔ یہ مکمل طور پر نئی نسل کے ہاتھ میں چلے گئے تو ہم بھی بےبس ہو جائیں گے۔ اس سے مجھے حسین شہید سہروردی یاد آگئے۔ ایک روز وہ آرام کر رہے تھے اور شیخ مجیب ان کے پاؤں داب رہے تھے۔ دابتے دابتے کہنے لگے ’’سہروردی صاحب! کیوں نہ ہم مشرقی پاکستان کو الگ ملک بنا لیں‘‘۔ یہ سننا تھا کہ سہروردی صاحب غضبناک ہو گئے اور شیخ مجیب کو اتنی زور سے لات ماری کہ شیخ صاحب نیچے جا گرے۔ بعد میں سہروردی صاحب ہر ایک سے یہی کہتے رہے کہ آج وقت ہے کچھ کر لو ورنہ معاملات نوجوانوں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے اور ہم بے بس ہو جائیں گے۔ سہروردی صاحب کی بات مگر کسی نے نہ سنی۔گولی ہی ہر مسئلے کا حل ٹھہری اور جالب چیختا رہ گیا:
’’محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو‘‘
آج قومی اسمبلی میں بلوچستان کی صرف17 نشستیں ہیں۔ اور ایک نشست این اے 271 (خاران، واشوک، پنجگور) کے ایم این اے کا علاقہ پورے خیبر پختونخوا سے زیادہ ہے۔ اور ترقیاتی بجٹ صرف ایک کروڑ۔ اب ان 17 نشستوں میں سے بمشکل پانچ یا چھ نشستیں اوپن ہیں۔ باقی کچھ ہیوی ہیٹس کی پاکٹ سیٹس ہیں۔ جب پورے صوبے سے قومی اسمبلی کی نشستیں ہی اتنی کم ہوں تو نواز شریف یا آصف زردای کو کیا پڑی ہے وہ کوئٹہ، ژوب اور لورا لائی کے دھکے کھاتے پھریں۔ چنانچہ آج ہمارے سیاست دانوں کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ بلوچستان کے جھنجھٹ میں پڑیں۔ سیاست دان حساب سود و زیاں میں بڑا کائیاں ہوتا ہے۔ اگر یہ نشستیں پچاس ساٹھ ہوتیں تو کیا عجب کہ نواز شریف صاحب اپنے اجلاس مری کے بجائے زیارت میں بلاتے اور محترم پرویز رشید ہمیں بتا رہے ہوتے کہ فیصلہ قائداعظم کی محبت میں کیا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے آخری ایام یہاں گزارے تھے۔جب مرکزی قیادت وہاں کا رخ کرتی تو وہاں کا احساس محرومی بھی کم ہوتا اور وہ قومی دھارے میں بھی آ جاتے۔ قومی قیادت اب ایک ڈیڑھ درجن نشستوں والے صوبے میں تو جانے سے رہی۔ صوبہ بھی ایسا جہاں ایک ایک حلقہ ایک ایک صوبے کے برابر ہو۔
تو کیوں نہ یہ نشستیں بڑھا دی جائیں؟ بلوچستان آخر پرایا نہیں، اپنا ہے۔ آپ کا بھی ہے، میرا بھی ہے۔

Comments

Click here to post a comment