آپس کی بات ہے، محمود خان اچکزئی صاحب جیسے افراد ہمارے ملک کے لیے فائدہ مند ہی ثابت ہوسکتے ہیں، نقصان دہ نہیں۔ اس ضمن میں پہلا نکتہ تو یہ اہم ہے کہ جب بھی کوئی فرد جمہوری عمل میں حصہ لے کر پارلیمنٹ میں آتا ہے تو یہ بات مان کر آتا ہے کہ وہ ریاست کے دیے گئے فریم ورک میں کام کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ اس کی مزید تصدیق وہ ممبر پارلیمنٹ کا حلف اٹھا کر فراہم کر دیتا ہے جہاں وہ ریاست کے ساتھ اٹوٹ وفاداری کی قسم کھاتا ہے۔ اب اس ایوان میں وہ جو بھی بات کرے ، کتنا تلخ بھی بولے وہ ریاست اور اس کی حاکمیت کے تحت خود کو پابند کر چکا ہے۔ وہ نیشنل اسمبلی آف پاکستان میں کھڑا رہ کر بات کر رہا ہے، کابل، جینیوا ، یا دلی سے نہیں۔ پارلیمنٹ اس کے سوا اور ہے ہی کیا کہ پورے ملک کی گلیوں سے تلخی سمیٹ کر ایک جگہ اکٹھی کر لی جائے اور پھر اس میں سے اتفاق رائے اور حل تلاش کیے جائیں ؟
بسا اوقات جو نظر آ رہا ہوتا ہے حقیقت اس سے کہیں مختلف ہوتی ہے، اسے سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ بڑا منظرنامہ دیکھا جا سکے۔ ایک بندہ نیشنلزم کی بنیاد پر ووٹ لے کر آتا ہے اس کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ موقع پڑنے پر اپنے ووٹرز کو ’’کارکردگی‘‘ دکھائے۔ دکھانے دیجیے۔ اس کی کارکردگی صرف اس کے کام ہی نہیں آتی، ریاست کے کام بھی آتی ہے۔ جہاں بظاہر وہ گرم لہجہ میں بات کرتا دکھائی دیتا ہے وہیں وہ ایک پریشر ریلیز والو کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے اور کسی بھی عوامی رد عمل کو سڑکوں پر آنے سے پہلے مناسب انداز میں ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس کا پیغام سب تک پہنچتا ہے کہ جب بات کرنے کا جائز فورم موجود ہے اور بات کرنے کی آزادی بھی ہے اور سننے والے سنتے بھی ہیں تو پھر مسلح یا دیگر مزاحمت کا کیا مقصد؟
اچکزئی صاحب سے اظہار ناراضگی کیا جا سکتا ہے، بالکل کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ بات کر سکتے ہیں تو اس بات کی شکایت بھی ہو سکتی ہے، جو کہ کی بھی گئی، لیکن یہاں دو باتیں بہت اہم ہیں۔
1۔ اگر پارلیمنٹ میں بات کرنے پر کسی کو غدار کہیں گے یا کہلوائیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والا اور ریاست کے ایوان میں بات کرنے والا برابر ہو گئے۔ یہ نہایت خطرناک مماثلت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قانون کے دائرہ میں رہنا اور قانون شکنی ایک ہی بات ہیں۔ یہ کلیدی تفریق ہے اور اسے ہر صورت قائم رہنا چاہیے۔
آج بہت سے لوگ، بشمول سابق فوجی افسران، اس بات پر متفق ہیں کہ اگر 6 نکات کا معاملہ عوامی اجتماعات کے بجائے پارلیمنٹ میں ہوتا، اور اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس بلا لیا جاتا تو ملک کبھی نہ ٹوٹتا۔
2۔ قوم پرستی کے معاملات جتنے کم افراد کے ہاتھ میں رہیں اتنا ہی بہتر ہے۔ ان سے بات کرنا بھی آسان ہے اور بات سمجھنا بھی۔ اگر یہ معاملہ چھوٹے چھوٹے خودسر گروپوں کے ہاتھ میں چلا جائے تو اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے، خاص کر ہمارے مخصوص حالات میں جہاں ایسے لوگوں کو مدد فراہم کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔
اس سہولت کی قیمت صرف اتنی ہے کہ کبھی کبھار ایسا کوئی تلخ بیان برداشت کر لیا جائے۔ آہستہ آہستہ یہی مملکت کے بڑے بہی خواہ بن جاتے ہیں کیونکہ ان کا مفاد اب اسی سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے کسی بھی موقع پر اگر ناراضی بھرے بیان کے بجائے ایک Politically Correct Statement جاری ہو جائے، جیسا کہ، ہم اپنی کارکردگی کے بارے میں کسی بھی فورم پر پریزنٹیشن دینے کو تیار ہیں، تو سب فوری طور پر سکوت اور سکون کی حالت میں ہو جائیں گے۔ کیا سب کو معلوم نہیں کہ پچھلے دو سال میں حالات میں کتنی بڑی تبدیلی آئی ہے؟ حکومت ہر سطح پر فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کا دفاع کر رہی ہے۔ یہ کام اسی کے کرنے کا ہے، اسی کو کرنے دیجیے۔ دو اطراف سے یہ کام ہونے سے صرف کنفیوژن بڑھے گا یا میڈیا کی موجیں لگی رہیں گی۔
بند مٹھی لاکھ کی ۔۔۔۔ اسے بند ہی رکھیے !
تبصرہ لکھیے