ہوم << تیری خاطرکشتیاں جلادیں ہم نے - قاضی عبدالرحمن

تیری خاطرکشتیاں جلادیں ہم نے - قاضی عبدالرحمن

تو ایک بار ذرا کشتیاں جلا تو سہی
ہے کیا مجال کہ اک لمحہ بھی زوال رہے
انگریزی کامقولہ ہے،
"Great achievement often happens when our backs are up against the wall."
عظیم کامیابیاں اکثراس وقت واقع ہوتی ہے جب ہماری پشت دیوارسےجالگے. (گویامزیدپیچھے ہٹنے کاموقعہ ہی نہ ہو!)
پردہ اٹھتاہے. وقت تیرہ سوبرس پہلے لےچلتاہے.
بنوامیہ کی سلطنت خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دورخلافت میں عروج کی بلندیوں کو چھو رہی ہے. 29، اپریل سنہ711عیسوی کا دن اسلامی تاریخ کا تاریخ ساز دن ہے. اس دن افریقہ کی بربر قوم نے اسلام کی قوت سے یورپ کو شکست فاش سےدوچار کیا ہے. اس دن 7 ہزار افراد پر مشتمل اسلامی لشکر (موسی بن نصیر کی طرف سے کمک ملنے پر یہ تعداد بڑھ کر 12ہزار ہوگئی تھی)، بربر نوجوان طارق بن زیاد کی قیادت میں ہسپانیہ (اندلس) کےساحل 'مونس کالپے' پر لنگر انداز ہوا. آج کے بعد یہ ساحل 'جبل الطارق' یا 'جبرالٹر' کے نام سے موسوم ہونےوالا تھا.
اس لشکرکشی کا مقصدمال غنیمت یا کشورکشائی ہرگز نہیں تھا. ہوا یوں کہ ہسپانیہ کے بادشاہ روڈرک نے اپنےگورنر جولین کی بیٹی کو اپنے یہاں تعلیم وتربیت کے بہانے بلا کر اس کی عصمت دری کر دی، اس نے مسلمانوں کو حملے کی دعوت دی. آمدم برسر مطلب، مزید کسی پیش قدمی سے قبل لشکر کے جرنیل طارق بن زیاد نےفرار کی راہ مسدود کرنے کےلیے ایک جملہ پر مشتمل عجیب حکم دیا. ’’کشتیاں جلادو!‘‘
اس مردجری اور مردہنر کے عزائم کی تصویر کشی علامہ اقبال نے اپنے ایک مختصر فارسی قطعہ میں یوں کی ہے:
طارق چو برکنارہ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کار تو بہ نگاہِ خرد خطاست
دوریم از سوادِ وطن باز چوں رسیم؟
ترک سبب زروئے شریعت کجا رو است
خندید و دستِ خویش بہ شمشیر برد و گفت
ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست
(ترجمہ: طارق نے جب ساحلِ اندلس پر اپنی کشتیاں جلا ڈالیں تو اس کے ہمراہیوں نے کہا کہ تیرا یہ کام عقل و شعور کے لحاظ سے غلط ہے۔ ہم اپنے وطن کی سرزمین سے بہت دور ہیں، واپس کیسے پہنچیں گے؟ شریعت میں اسباب کو ترک کرنے کی اجازت کہاں ہے؟ طارق مسکرایا اور اس نے اپنا ہاتھ تلوار کے قبضے پر رکھا اور یوں گویا ہوا: ہر ملک ہماری مِلک میں ہے کیونکہ ہمارے خدا کا ملک ہے۔)
غرض یہ تھا وہ حکم جس نے ’شکست اور ناکامی‘ کو خودکشی پر مجبور کیا اور فتح اپنی غیرمعمولی صورت میں جلوہ افروز ہوئی، جب قلیل کثیر پر غالب آگئے، آسمان نے فضائے بدر و حنین کا منظر دوبارہ دیکھا، روڈرک کی ذلیل فطرت، ذلت کی موت سے ہمکنار ہوئی. طلیطلہ، غرناطہ اور اشبیلیہ کے قلعوں پر اسلامی جھنڈا لہرانے لگا. اس واقعہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آج بھی انگریزی ڈکشنری میں محاورہ اپنی کشتیاں جلانا (burn your boats) ملتاہے. ڈکشنری میں اس کے معنی ملاحظہ فرمائیے:
'to do something that makes it impossible for you to change your plans and go back to the situation you were in before.'
(ترجمہ: کچھ ایسا کرنا جس کے بعد اپنے پلان میں تبدیلی کرنا اور دوبارہ پہلی حالت کی سمت واپسی ناممکن ہوجائے.)
تصور کیجیے کہ آپ کی کشتیاں جل رہی ہیں، فرار کے راستے بند ہوچکے ہیں، ناکامی کا خیال بھی موت سے ہمکنار کر سکتا ہے. ایسے میں آپ کتنی بلندی پر پہنچیں گے؟ آپ کی جرات کی انتہا کیا ہوگی؟ کس جفاکشی سے محنت کریں‌گے؟ اور زندگی کی کس عظمت کو چھوئیں گے؟
تاریخ کا اہم ترین سبق ہے، جب دنیا مخالفت پر کمربستہ ہوجائے تو ایسے میں حضرت موسی علیہ السلام کو دریائے نیل کے حوالے کرنا پڑتا ہے. حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نارنمرود میں داخل ہونا پڑتا ہے. حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی عصمت کی حفاظت کے لیے جیل جانا پڑتا ہے. حضرت یونس علیہ السلام کومچھلی کا لقمہ بننا پڑتا ہے. روحی فداہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر کے میدان میں بےسروسامانی کےعالم میں جہاد کرنا پڑتا ہے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کے غیرمحفوظ ہونے کے باوجود تارکین زکوۃ اور مرتدین اور نبوت کےجھوٹے دعویداروں کے خلاف لشکرکشی کرنی پڑتی ہے. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی کو خطرے کے باوجود آخری سانس تک فیصلے پر قائم رہنا پڑتا ہے. یونہی صالح انقلاب نہیں آتے. زندگی بدتر سے بہتر کی طرف گامزن نہیں ہوتی.
آسانیوں سے پوچھ نہ منزل کا راستہ
اپنے سفر میں راہ کے موتی تلاش کر
ذرے سے کائنات کی تفسیر پوچھ لے
قطرے کی وسعتوں میں سمندر تلاش کر
تحریر:قاضی عبدالرحمان(انڈیا)