ہوم << دلیل ، خوش آمدید - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

دلیل ، خوش آمدید - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

1096_96255163 دلیل کا آغاز ہو رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کے لیے سب سے زیادہ اہم اور غالباً اسی قدر کمیاب شے ہے یہ دلیل۔ دعا ہے کہ اس کے منصہ شہود پر آنے سے "تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا" کے مصداق پاکستانی قوم کے لیے ایک مشعل راہ کا سامان ہو جائے۔
بامقصد صحافت یا صحافت برائے بہتری کے لیے جتنی اہمیت ٹھوس حقائق کی ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔ تاہم اس کے ساتھ اس بات کا اہتمام بھی لازم ہے کہ ان حقائق کا ابلاغ ایسے پیرائیہ میں ہو کہ عوام تک بات ممکنہ حد تک اپنی اصل حالت میں پہنچے اور اس کے بعد اگر کوئی بحث چلتی ہے تو وہ جذباتیت اور پھوہڑپن سے پاک ہو۔
یہ بہت اہم ذمہ داری ہے ۔ "دلیل" سوشل میڈیا و آن لائن کے حوالہ سے بامقصد اور بامعنی صحافت کا علمبردار ہے اور اس کے ذمہ یہ کام بھی ٹھہرتا ہے کہ وہ بات کرنے کو "آسان" بنائے۔
ہمارے سماج کو اس وقت تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔
اول یہ کہ ہم گفتگو کو ایک طے شدہ پوزیشن لے کر آغاز کر تے ہیں اور خیالات میں تبدیلی کا جس قدر بھی امکان رہتا وہ صرف دوسرے کی طرف ہوتا ہے کہ اسے ہمارے مطابق تبدیل ہونا چاہیے۔ شومئی قسمت، دوسری جانب سے بھی اسی رویہ کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے اور نتیجتاً کسی بھی ایسی "گفتگو" کے بعد ہر دو اطراف اور بھی زیادہ مضبوطی سے اپنے مؤقف پر جم جاتے ہیں نیز اب اس میں ایک دوسرے کے حوالہ سے غصہ اور تعصب میں کئی درجہ بڑھوتری بھی ہو چکی ہوتی ہے۔ یعنی، کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ مکالمہ ، مناظرہ کی نظر ہؤا اور مناظرہ ، مناقشہ کی۔
دوسرا اہم مسئلہ (جو میری رائے میں ایک نہایت خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے) یہ ہے کہ غیر محسوس انداز سے ہم مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے سے کٹتے چلے جارہے ہیں۔ اب اس میں سیاسی (اور سیاسی بمقابلہ فوج) تفریق کو بھی کسی حد تک شامل کیا جا سکتا ہے۔ بظاہر سب تھیک لگتا ہے لیکن جب بھی آپ سوشل میڈیا پر کسی ایسے گروپ میں جا نکلتے ہیں جو کسی ایک فکر کا ترجمان ہو تو وہاں پر جو خیالات ملتے ہیں انہیں محض اختلاف قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ان کی تپش ، لہجہ اور مندرجات ایک پریشر کوکر کا پتہ دیتے ہیں جو پھٹ پڑنے کے قریب ہو۔ اس کا ہدف بالعموم وہ معاملات رہتے ہیں جنہیں ہم قومی اتفاق رائے کا مظہر قرار دیتےہیں۔ وہ سی پیک ہو ، ضرب عزب ہو یا پھر کراچی آپریشن۔ بے چینی کی ایک زیر زمین لہر آپ کو ہر جگہ دکھائی دے گی۔ اس کا سدباب ضروری ہے۔ جو باتیں مکمل اتفاق کا نتیجہ بھی ہوں ان کے بارے متعلقین اور متاثترین کے آراء پر وقتاً فوقتاً غور کرنا انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح جمع فرسٹریشن کا خاتمہ بھی ہو سکے گا اور ایک متفقہ منصوبہ کو اس کے منطقی انجام تک "متفقہ" رکھا بھی جا سکے گا۔ وگرنہ ۔۔۔ یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ کوئی بدخواہ کسی وقت بھی سلگتے جزبات کو جوالہ نہ بنا دے۔ سوشل میڈیا پر یہ سب کرنا بہت آسان ہے۔ اس حوالہ سے ایک بھرپور اور مستقل حساسیت کا فروغ نہایت اہم ہے۔
تیسرا بڑا چیلنج جو ہمیں درپیش ہے ۔۔۔۔ وہ دگرگوں عالمی حالات ہیں۔ بالخصو، ہمارے اڑوس پڑوس میں۔ یہ خطہ عالمی طاقتوں کی باہمی سر پھٹول سے شدید عدم استحکام کا شکار ہے ۔ تاہم یہ تاثر نمایاں ہے کہ یا تو ہماری قوم کو اس عفریت کے اصل حجم کا اندازہ نہیں ہے یا وہ اس سے بالکل لا تعلق ہوئے بیٹھے ہیں۔ حکومت کا بیانیہ اس ضمن میں بے اثر سا لگتا ہے اور رہی سہی کسر ہر بات پر "کانسپریسی تھیوری" کا نعرہ لگانے والوں نے پوری کر دی ہے۔ قوم کو اس جاری کشمکش کے عواقب اور اس کے ہنگام اپنی ممکنہ حکمت عملی سے متعلق آگاہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ بےخبری میں عمل اور جدوجہد کی راہ کھوٹی نہ ہو جائے ۔
"دلیل" کا ان چیلنجز سے نمٹنے میں ایک اہم رول ہو گا۔ اس کا پلیٹ فارم اور اس کے قاری اس سلسہ کی اہم ترین کڑی ہیں۔ غصہ ، ری ایکشن، تخریب، طنز، تضحیک وغیرہ سے دانستہ اعراض کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے کیونکہ اس دنیا میں تہذیب سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں۔
اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

Comments

Click here to post a comment