ہوم << نظریاتی سفر - رعایت اللہ فاروقی

نظریاتی سفر - رعایت اللہ فاروقی

نظریے کا13502014_1194080927282567_3019287501692146358_n سفر کتاب سے شرع نہیں ہوتا۔ کتاب اس کا دوسرا پڑاؤ ہے۔ اس سفر کا آغاز آپ کی ذات سے ہوتا ہے۔ وہ ذات جو سرشت اور فطرت سے مزین ہوتی ہے مگر ساتھ ہی نفس اور اور شیطان سرشت اور فطرت کو غلط راہ پر ڈالنے یعنی آپ کی ذات تباہ کرنے کے لئے مقابل کے طور پر بھی موجود ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی میں یہ مقابلہ ہوکر رہتا ہے اور اس کا آغاز عین بچپن میں ہوجاتا ہے۔ اس بے آواز مگر گھمسان کی جنگ میں آپ کو ایک شاندار رفیق کی ہمراہی بھی میسر ہوتی ہے۔ ایک ایسا رفیق جو نظر نہیں آتا مگر یہ قدم قدم پر آپ کو درست کی طرف متوجہ کرنے اور غلط پر متنبہ کرنے کا کام دن رات سر انجام دیتا ہے۔ آپ تھک جاتے ہیں مگر یہ نہیں تھکتا، آپ نا امید ہوجاتے ہیں مگر وہ نہیں ہوتا اور آپ شائد ہتھیار ڈالدیں مگر وہ نہیں ڈالتا۔ یہ آپ کے لاشعور سے ہی رشتہ نہیں رکھتا بلکہ آپ کے شعور سے بھی مستقل مخاطب رہتا ہے۔ یہ بے آواز بولتا ہے مگر پھر بھی اس کی گونج آپ کی پوری ذات میں پھیلتی اور سنائی دیتی ہے۔ اپنے اس اعلیٰ رفیق کو آپ "ضمیر" کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کی سب سے شاندار خوبی یہ ہے کہ یہ صرف صرف درست اور سچ بولتا ہے۔ اگر اوائل عمری میں ہی آپ اس کی جانب مکمل طور پر متوجہ ہوجائیں تو یہ قوت پکڑتا جاتا ہے اور پھر وہ دن آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جب بھی آپ ڈگمگانے لگتے ہیں کوئی آپ کا بازو پکڑنے کو موجود ہوتا ہے۔ ان واقعات کی کثرت آپ کا عقیدہ بنادیتی ہے کہ آپ کو تائید غیبی یا نصرت غیبی میسر ہے۔ تائید غیبی یا نصرتِ غیبی سچوں کو میسر آتی ہے اور سب سے بڑا سچا وہ ہے جو اپنی ذات کے اندر بیٹھے اس سچے کو اہمیت دے اور اس کی رہنمائی کو مقدم جانے۔ اگر اپنی ذات میں گونجتی اس سچائی کو آپ مسلسل نظر انداز کریں تو مت بھولیں کہ سرشت اور فطرت کے ہوتے نفس اور شیطان سے ہارنے والے ہر دور میں اکثریت میں دیکھے گئے ہیں۔
اگر کتاب سے قبل اپنی ذات کے اس مرحلے میں ضمیر کی مشاورت پر قدم اٹھانے شروع کردیئے جائیں تو رفتہ رفتہ وہ شخصیت تعمیر ہونا شروع ہوجاتی ہے جسے کتاب والے مرحلے کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ تب کتابی سفر کے دوران بلند قامت و عجیب الخیال لوگ آپ کو حیران نہیں کر پاتے۔ نظریاتی سفر میں کتابی مرحلے میں "حیرت" ہی سب سے خطرناک چیز ہے۔ یہ حیرت ہی ہوتی ہے جو کسی بھی عجیب فکری تصور کے ساتھ آپ کو باندھ دیتی ہے اور آپ اس کے درست یا غلط کا تجزیہ کئے بغیر ہی اس کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ حیرت کے یہ مقام نوجوانی میں آتے ہیں مگر بری بات یہ ہے کہ جب آپ ان تحیرات کو بطور نظریہ پیش کرنا شروع کردیتے ہیں تو جلد وہ دن آ کر رہتا ہے جب آپ پر انکشاف ہوتا ہے کہ محض نوعمری کے سبب آپ ایک غلط تصور سے متاثر ہو گئے تھے اور اس حد تک ہوگئے تھے کہ خود کو ایک نظریاتی شخص سمجھ کر اس لغو تصور کو بطور نظریہ پیش بھی کرنے لگے تھے۔ یہاں خطرناک بات یہ ہوجاتی ہے کہ آپ کو ضمیر کی آواز پر کان دھرنے کی عادت نہیں سو نفس اور شیطان آپ کے لئے غلطی کا اعتراف مشکل بنا دیتا ہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اوائلِ عمری سے ہی ضمیر کی سنتے آتے ہیں وہ اول تو کسی کتابی خیال سے حیران نہیں ہوتے، وہ ان تصورات سے کچھ لمحوں کا سرور ضرور حاصل کرتے ہیں لیکن انہیں اس وقت تک اختیار نہیں کرتے جب تک اس کا خوب خوب تجزیہ نہ کر لیں اور اس تجزیئے میں بسا اوقات عمر عزیز ہی تمام کر دیتے ہیں۔ اگر بالفرض وہ حیران ہو بھی جائیں اور وہی حرکت کر ڈالیں جو آپ نے کی تو زندگی کے جس موڑ پر بھی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجائے وہ اسی لمحے "رجوع" کر لیتے ہیں اور ایسا بہت ہی آسانی سے وہ اس لئے کر پاتے ہیں کہ انہیں بچپن سے ہی سچ کی اطاعت کی عادت ہوتی ہے۔ انہوں نے باہر کے سچ سے بھی قبل اپنے اندر کی سچائیوں کو قبول کرنے کی جو عادت ڈالی تھی وہ اب نہ صرف کتابی مرحلے میں بھی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے بلکہ جب نظریاتی زندگی کا وہ تیسرا اور فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے جسے ہم عملی زندگی کے نام سے جانتے ہیں تو ایسے لوگ سچائی کے لئے اپنا تن، من، دھن قربان کر دیتے ہیں۔ دنیا کو حیرت ہوتی ہے کہ اس انسان نے ایسی لازوال قربانیاں کتنی مشکل سے دی ہونگی اور ان مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ کیسے کیسے کرب سے گزرا ہوگا مگر دنیا جانتی ہی نہیں یہ قربانیاں اس نے اسی بے تکلفی اور آسانی سے دی ہوتی ہیں جس بے تکلفی و آسانی سے پانی کا جام پیا جاتا ہے۔ ایک خالص نظریاتی شخص کے لئے یہ قربانیاں نہایت ہی سہل ہوتی ہیں ورنہ وہ بھی جانتا ہے کہ اذیت سے بچنا ایک ایسا آپشن ہے جو ہفتے کے سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے میسر رہتا ہے۔ جسے سچائی کا نشہ لگ جائے وہ فنا اور بقاء سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ جیل، کوڑا اور تلوار اس کے لئے کھلونوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ کسی نظریاتی شخص کی سب سے بڑی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ بے خوف ہوتا ہے۔ اگر بے خوف نہیں تو سقراط ہی کیوں نہ ہو وہ نظریاتی شخص نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں نظریہ اور نظریاتی سفر دم توڑ چکا۔ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں اب سوچنا، پڑھنا اور کرنا سب کمرشل ہو چکا۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ ہمارے ملک میں ہم تنظیمیں، لٹریچر اور دانشوروں کی ایک فوج دیکھا کرتے جو کمیونزم کا پرچار کیا کرتے تھے، وہ لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ وطن عزیز میں اگر کوئی "نظریاتی" ہے تو بس وہی ہیں لیکن جوں ہی سوویت یونین ٹوٹا کمیونزم بھی ساتھ ہی یتیم ہوگیا، اس کی دعوت دینے والے کسی اور منڈی کے ہوگئے۔ وہ نظریاتی کمیونسٹ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا بلکہ وہ کہتے کہ کمیونزم بطور نظریہ اب بھی موجود ہے اور ہم اس کے لئے لڑنے مرنے کو اب بھی تیار ہیں۔ مگر ایسا نہ ہوا کیونکہ وہ نظریاتی نہیں بلکہ تجارتی جنگ لڑ رہے تھے۔ آج کی تاریخ میں دانشوروں کی وہی قسم "لبرل ازم" کی تجارت کر رہی ہے اور انہیں اصرار ہے کہ بریڈ اینڈ بٹر کی اس جد و جہد کو نظریئے کی خدمت کی نظر سے دیکھا جائے۔ اس مکمل کمرشل صورتحال میں یہ طے سمجھئے کہ جس پتلی گلی سے کمیونزم کی تجارت کرنے والے عنقا ہوئے تھے وہی پتلی گلی لبرل ازم کی تجارت کرنے والوں کے بھی کام آئے گی۔ برادرِ مکرم عامر خاکوانی صاحب نے اچھا کیا کہ رائٹ ونگ کے نوجوانوں میں نظریاتی شعور اجاگر کرنے کی غرض سے غیر تجارتی "دلیل" کا آغاز کیا۔ شائد ایک دن وہ بہت ہی اطمینان سے کہیں۔
دلیل اس کے دریچے کی پیش کی میں نے
کسی کو پتلی گلی سے نہیں نکلنے دیا

Comments

Click here to post a comment

  • ماشاء اللہ محترم فاروقی صاحب نے آغاز ہی بڑا شاندار کیا ہے اور ایک راہ دکھاتی تحریر لکھ کر اندھیروں کے سفر میں ایک مشعل سب کے ہاتھوں میں تھما دی ہے ...
    ایک بات کی وضاحت چاہتا ہوں کہ کمیونزم کے سابقہ علمبردار اب لبرل ازم کا لبادہ اوڑھنے کے باوجود اس بات پر مصر ہیں کہ کمرشل افکار کو نظریہ کا نام دیا جائے، ان کا جواب تو بآسانی دیا جاسکتا ہے، آپ کی تحریر میں بھی جواب موجود ہے، لیکن کچھ ایسے لوگوں کو بھی پڑھنے کا موقع ملا کہ وہ سرے سے کسی بھی نظریے کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ نظریہ اور عقیدہ انسان کو جامد اور تنگ نظر بنادیتا ہے، پھر رفتہ رفتہ اس میں شدت اور تشدد کا عنصر در آتا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو برداشت نہیں کرتا بلکہ ان پر تششد کا بھی قائل ہوجاتا ہے ...
    ایسے لوگوں سے جب بات کی جائے تو کس دلیل سے کی جائے، آپ کی راہنمائی درکار ہے .
    جزاکم اللہ

  • دلیل کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں. اس فورم کی شدید ضرورت تھی. براہ کرم اسے وعظ نہ بننے دیجئے گا. کیا نستعلیق میں تحریریں دینا ممکن ہے جیسا کہ ریختہ ڈاٹ آرگ میں ہوتی ہیں