ہوم << ’’سر پاکستان‘‘ - حنا نرجس

’’سر پاکستان‘‘ - حنا نرجس

بظاہر ہوا کے دوش پر لہراتا فقرہ پردہ سماعت سے ٹکرایا تھا مگر انہیں لگا ہوا میں سنسناتی کوئی گولی ان کے وجود میں آ کر پیوست ہو گئی ہے. غصے اور حمیّتِ ملّی کے ملے جلے جذبات کی حدّت سے ان کا جسم جل اٹھا تھا اور سارا خون جیسے چہرے پر سمٹ آیا تھا.
بات کرنے والے کا چہرہ تو نگاہ سے اوجھل تھا ہی، آواز بھی نا مانوس تھی. اس سے پہلے کہ خود پر قابو پانے کی کوئی کوشش کامیاب ٹھہرتی، اگلا فقرہ بارش کی رم جھم کی نرم ٹھنڈی پھوار کی طرح ان کے چہار اطراف لپٹ گیا تھا. آواز اب کے مانوس تھی. ان کے تن من میں سکون ہی سکون پھیل گیا. اب ان کے احساسات اس کسان کے سے تھے جو کئی مہینوں کی جاں گسل محنت کے بعد لہلہاتی، تیار، بھرپور فصل دیکھ کر خوشی و طمانیت سے جھوم اٹھے. حالانکہ ان کو تو بس پہلے سے زرخیز اس مٹی کو کچھ نمی ہی فراہم کرنا پڑی تھی.
وہ حسب معمول چوتھے پیریڈ میں ریاضی کی کلاس لینے تیسری منزل پر واقع جماعت نہم کے کمرے کے باہر آ رکے تھے اور کمرہ جماعت میں موجود استاد کے باہر آنے کے منتظر تھے، جب انہوں نے سنا، ’’پاکستان میں رہنا کسی عذاب سے کم نہیں ہے اور ویسے بھی اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے. دنیا کا شاید ہی کوئی ملک اتنا......‘‘
’’سر، براہ مہربانی پاکستان کے بارے میں یوں نہ کہیں. سب کچھ اسی ملک کی وساطت سے ہی تو دیا ہے اللہ نے ہمیں. یہاں اگر کچھ مسائل ہیں بھی، تو ان کے ذمہ دار ہم خود ہیں. یہ جیسا بھی ہے ہمارا گھر ہے اور ہمیں بے حد عزیز ہے.‘‘ بات کاٹ دی گئی تھی.
نئے استاد کو شاید طلبہ سے ایسے ردعمل کی توقع نہیں تھی، اس لیے کمرہ جماعت سے برآمد ہونے والے چہرے پر کھسیانی کیفیت کے آثار واضح تھے. جبکہ سر عاطف زماں دھیمی مسکراہٹ اور سرشار موڈ کے ساتھ اندر داخل ہوئے.
’’آج گرمی کچھ زیادہ ہی ہے بچّو اور بجلی بھی صبح سے بند ہے.‘‘
اس سرسری سے لہجے میں کی گئی بات کا مقصد کلاس کا مجموعی موڈ اور مورال چیک کرنا تھا.
’’سر، کوئی بات نہیں، ہم ڈیسک پر چڑھ کر اوپر والی کھڑکیاں بھی کھول لیتے ہیں. آپ لیکچر کا آغاز کریں، ہم تیار ہیں.‘‘
بچے سچ مچ سمجھ دار اور بڑے ہو چکے تھے. ان کے اس ذمہ دارانہ رویے پر انہیں بہت پیار آیا. کلاس میں معمول کی کارروائی شروع ہو چکی تھی مگر سر عاطف زماں کے ذہن میں بار بار گذشتہ سال کے جون کے مناظر آ جاتے جب انہیں سکول میں ملازمت کا آغاز کیے تقریباً دو ماہ ہو چکے تھے مگر وہ تا حال بد دلی کا شکار تھے.
دراصل بچپن سے لے کر جوان ہونے تک ہمیشہ انہوں نے خود کو ارضِ پاکستان کی سرحدوں کا دفاع کرتے تصور کیا تھا. پاک فوج میں شامل ہونا ان کا شوق ہی نہیں، جنون و عشق تھا اور اس میں بڑا ہاتھ ماں جان کے سنائے گئے جہاد کے قصوں کا تھا. وہ بتاتی تھیں کہ ایک مرتبہ جب وہ محض پانچ سال کے تھے اور ابا جان کے پشاور سے لائے ایک خوبصورت ٹینک سے کھیلنے میں مشغول تھے. کچھ دیر بعد ماں جان نے دیکھا کہ ٹینک ٹوٹا پڑا ہے جبکہ عاطف بہت پرجوش اور خوش ہے. دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ،
’’ماں جان! میں نے دشمن کا ٹینک تباہ کر دیا ہے. یوں کر کے.....‘‘
وہ بار بار ایکشن کے ذریعے بتاتے ہوئے شاباش و تحسین وصول کرنے کے منتظر تھے. ماں جان نے یہ سوچ کر کہ جذبہ جہاد پر کوئی آنچ نہ آئے، قیمتی کھلونے کی بربادی بخوشی قبول کر لی اور’’دشمن‘‘ کا ٹینک تباہ کرنے پر عاطف کو انعام بھی دیا.
مگر ان کے مستقبل کے لیے خالق و مدبرِ کائنات کے ارادے ان کے ارادوں سے مختلف تھے. جب منزل دو بام رہ گئی تو ایک حادثے میں بازو بری طرح فریکچر ہونے پر وہ اَن فِٹ قرار دے دیے گئے. جسمانی زخم تو وقت کے ساتھ ساتھ بھر گئے مگر دل پر لگی کاری ضرب کی اذیت کم ہونے میں نہ آتی تھی. دوست احباب اور سب گھر والوں کے سمجھانے اور حادثے کو رضائے الٰہی سمجھ کر قبول کر لینے کی تلقین پر بالآخر انہوں نے خود کو سمیٹا اور اپنی عملی زندگی کا آغاز بحیثیتِ استاد کیا.
وہ گذشتہ جون کے گرم ترین دنوں میں سے ہی ایک دن تھا جب یونہی وقت گزاری کے لیے انہوں نے طلبہ سے کہا تھا،
’’گرمیوں کی چھٹیاں ہونے میں بس دو دن باقی ہیں ہیں تو چلیں آج کچھ ہلکی پھلکی گپ شپ ہو جائے. بتائیے آپ میں سے کون کہاں چھٹیاں گزارے گا؟‘‘
’’ہم لوگ مری جائیں گے پورے دو ماہ کے لیے‘‘ بچے کا جوش دیدنی تھا.
’’ہم کہیں نہیں جا رہے اس بار.‘‘ دوسرے بچے نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا.
’’ہم کراچی جائیں گے اور سمندر کی سیر بھی کریں گے.‘‘ سیر کے تصور سے ہی چٹخارہ لیتے ہوئے کہا گیا.
’’میں نانو کے گھر جاؤں گا رہنے کے لیے، گاؤں میں.‘‘ لہجے میں قدرے شرمندگی کا عنصر شامل تھا.
’’ہم دوبئی جائیں گے، چچا کے پاس، اور میرے بس میں ہو تو کبھی پاکستان واپس نہ آؤں.‘‘ لہجے میں امارت و خوشحالی کا احساس نمایاں تھا.
’’اور میرا بھی دل چاہتا ہے یہاں سے دُور... دُور... بہت دُور... چلا جاؤں کہیں‘‘ انداز حسرت آمیز تھا.
’’دل کس کا نہیں چاہتا بھلا؟ مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم پاکستان کے شہری ہیں اور یہیں رہنے پر مجبور بھی.‘‘ اب کے کلاس کا مانیٹر بولا تھا.
’’میں سمجھا نہیں... آپ پاکستان کو چھوڑ کر کیوں جانا چاہتے ہیں؟ میں تو چند دن بھی پاکستان سے دور نہیں رہ سکتا.‘‘
بچوں سے فوراً کوئی جواب بن نہ پڑا.
’’اچھا ذرا یہ تو بتائیں پاکستان کس کس کو اچھا لگتا ہے؟‘‘
وہ جو امید کر رہے تھے کہ ایک دم ساری کلاس ہاتھ کھڑے کر دے گی، ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی، کوئی ایک ہاتھ بھی نہ اٹھا تھا. بے یقینی کی کیفیت میں انہوں نے سوال دہرایا. اب کے بھی وہی رد عمل تھا، بس اس اضافے کے ساتھ کہ سر کی حیرت کی بنا پر کچھ بچوں نے چہرے جھکا لیے تھے.
’’تو کیا میں سمجھوں کہ پاکستان آپ کو اچھا نہیں لگتا؟؟؟"
’’جی سر... اچھا کیسے لگے گا..؟ دیکھیں میری شرٹ بری طرح بھیگ چکی ہے... تین گھنٹے سے بجلی بند ہے اور ہوا بھی نہیں چل رہی...‘‘
’’اور سر میں صبح خالی پیٹ آیا ہوں گھر سے. گیس نہیں آ رہی تھی اس لیے ناشتہ نہیں بنا. امی نے پیسے دیے ہیں مگر مجھے کینٹین کے تیز مرچوں والے سموسے اچھے نہیں لگتے.
’’سر، ہماری بوتلوں میں پانی تو دوسرے پیریڈ میں ہی ختم ہو گیا تھا. الیکٹرک کولر میں پانی بالکل نہیں آ رہا. ٹھنڈا نہ سہی چلو گرم ہی مل جاتا.‘‘
’’اویس تو صبح اسمبلی میں بے ہوش بھی ہو گیا تھا. ابھی تک سر نیچے کیے بیٹھا ہے کلاس میں.‘‘
’’اور سر، روز دھماکے ہوتے ہیں. ہر وقت ٹی وی پر لوگوں کے مرنے کی خبریں اور مناظر یا پھر لوڈشیڈنگ سے تنگ آئے عوام کا احتجاج اور توڑ پھوڑ. ہم تھک گئے ہیں ایسے مناظر دیکھ دیکھ کر.‘‘
’’سر، مجھے کچھ ضروری نوٹس فوٹو کاپی کروانے ہیں. پھر تو سکول بند ہو جائے گا. صبح سے تین چکر لگا چکا ہوں نیچے بک شاپ کے، مگر بجلی ہی نہیں ہے.‘‘
ایک کے بعد ایک آواز... شکایات ہی شکایات...
انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے پاکستان سے محبت کی بات غلط موقع پر چھیڑ دی ہے. بچوں کی باتوں کے جواب میں کچھ دیر کے لیے تو ان کے اپنے اندر بھی گھمبیر خاموشی چھا گئی. بلاشبہ بچوں کے تمام اعتراضات درست تھے. مگر نئی نسل کا پاکستان سے یوں متنفر ہونا خطرے کی کئی گھنٹیاں ایک ساتھ بجا رہا تھا. انہیں بے حد تشویش ہوئی. یک دم انہوں نے سوال کر دیا.
’’اگر ہم میں سے کسی کا گھر ٹوٹا پھوٹا ہو، بے ترتیب ہو، غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں، آسائشوں سے عاری ہو، تو کیا ہم ہمسائے کے محل میں جا کر رہنے کی خواہش
کریں گے؟‘‘
بچے سنجیدگی سے سوچنے لگے.
’’نہیں سر، سکون تو اپنے گھر میں ہی ملتا ہے. ہم محنت اور کوشش کر کے اپنے گھر کے حالات کو بہتر بنا لیں گے.‘‘
’’اور کیا ہم میں سے ہر ایک کی ماں بہت اچھی ہے؟‘‘
اس سوال نے بچوں کو تذبذب میں مبتلا کر دیا.
’’سر، ماں تو اچھی ہی لگتی ہے.‘‘
’’یہی تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ ضروری نہیں ہم میں سے ہر ایک کی ماں بہت گوری چٹی، صاف ستھری اور خوبصورت ہو مگر پھر بھی ہمیں وہ بہت اچھی لگتی ہے. ایسا ہی
ہے نا؟‘‘
اس بار سارے سر ایک ساتھ اثبات میں ہلے.
’’تو بچو، پاکستان بھی تو ہمارا گھر ہے نا اور ارضِ وطن ہماری دھرتی ماں... اس سے محبت تو ہمارے وجود میں رچی بسی ہے. نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اپنے وطن مکہ سے بے پناہ محبت تھی. ہمیں پاکستان کو اس کی نظریاتی اساس کے ساتھ قائم و دائم رکھنے اور اسے بہتر بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے. مسائل ایک دم ختم نہیں ہو جائیں گے مگر ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی کوئی حل جلد یابدیر ضرور نکل آتا ہے.‘‘
گہری سوچ بچوں کے چہروں پر رقم تھی اور بات ان کی سمجھ میں آ گئی تھی جس کا واضح ثبوت ان کے چہروں پر چھایا شرمندگی و عزم کا تاثر تھا.
اُس گرم دن سر عاطف زماں پر دفاعِ وطن کے ایک نئے پہلو کا انکشاف ہوا تھا. تو کیا اللہ کو ان سے یہی کام لینا مقصود تھا؟ بچپن، لڑکپن اور جوانی کا جوشِ جہاد پوری آب و تاب کے ساتھ عود کر آیا تھا. وہ ایک تازہ دم سپاہی کی طرح بالکل تیار تھے. اب تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ وہ اس مشن کو لے کر بچوں کی ذہن سازی کرتے اور ہر اہم موقع پر تقاریر و مباحثے منعقد کروانے میں بھی پیش پیش رہتے. پورے سکول کے بچے ان کے اس مشن سے کسی نہ کسی طرح منسلک تھے اور خوب جانتے تھے کہ ’’سر پاکستان‘‘ کی موجودگی میں پاکستان کو برا بھلا کہنا ناقابل معافی و ناقابل برداشت جرم ہے.
جی ہاں،’’سر پاکستان‘‘، سر عاطف زماں کا پیار کا نام، ان کے شاگردوں نے رکھ چھوڑا تھا اور یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں نا کہ یہ نسبت انہیں اپنی جان سے بڑھ کر عزیز تھی...!

Comments

Click here to post a comment