ہوم << راجہ فاروق حیدر کا درد - راجہ سعود

راجہ فاروق حیدر کا درد - راجہ سعود

پچھلے کچھ عرصے سے آزاد کشمیر کے نومنتخب وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان جب اپنی حکومت کے ایجنڈے کا ذکر فرماتے ہیں اور بالخصوص جب میرٹ اور انصاف کی بات کرتے ہیں توان کا درد ان کی بیٹھی ہوئی آواز اور چھلکتی آنکھوں سے عیاں ہوتا ہے۔ ان کا یہ رویہ دل و دماغ میں ارتعاش پیدا کر دیتا ہے کہ ایسی کون سی بے بسی ان کو نظر آرہی ہے کہ ان کے پاس رونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔ انسان ایسے حالات میں دو ہی صورتوں میں روتا ہے، اول تو جب اسے کسی اہم مسئلے کا حل سرے سے مل ہی نہیں رہا ہوتا اور دوم جب مسئلے کا حل تو نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن اس کے نتائج اس قدر بھیانک ہوتے ہیں کہ وہ اس خاص مسئلے سے بڑا مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا آزاد کشمیر کے ادارے اس قدر کھوکھلے ہو چکے ہیں اور لوگ اس قدر نا انصافی کا شکار ہیں کہ ان کی بہتری نا ممکن ہو اور ان کو درست سمت پر لانا اتنا بڑا مسئلہ ہو کہ وزیراعظم کے پاس اس پر آنسو بہانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو؟ نہیں بظاہر بلکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرٹ اور انصاف پامال ہوتا ہے، لوگوں کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوتی ہے لیکن یہ مسائل تو دنیا کی ترقی یافتہ ترین قوموں کو بھی درپیش ہیں، اس میں بھلا آنسو بہانے والی کیا بات، آزاد کشمیر تو ایک چھوٹا سا خطہ ہے، اس کے سارے اداروں کو صحیح سمت میں لانے کے لیے کچھ دنوں کا وقت چاہیے ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا انصاف ہے جس کا حصول اس قدر مشکل ہے کہ راجہ فاروق حیدر کی آنکھوں سے درد بن کر بہہ رہا ہوتا ہے۔
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
مجھے بالکل نہیں اندازہ کہ راجہ صاحب کون سے انصاف کا نعرہ بلند کیے ہوئے بےبسی کا رونا رو رہے ہیں لیکن ماضی کے کچھ تجربات اور اپنی ناقص سمجھ بوجھ کے مطابق جب اپنے ذہن پر زور ڈال کر خود کو راجہ فاروق حیدر کی جگہ رکھ کر سوچتا ہوں تو کچھ ایسی ناانصافیاں نظر آتی ہیں کہ مجھے بھی رونے کے علاوہ کوئی چارہ نطر نہیں آتا بلکہ میرے جیسے کمزور اعصاب والا بندہ تو رونے سے بھی اگلی بات یعنی خود کشی کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب لوگوں کے سامنے آپ کو اتنا بڑا عہدا تو دے دیا گیاہو، پوری قوم آپ سئ توقعات وابستہ کیے ہوئے ہو لیکن آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیےگئے ہوں تو پھر آپ کے پاس آنسو بہانے کے سوا کون سا آپشن بچتا ہے؟
خدا ملا نہ وصال صنم
ادھر کے رہے نہ ادھر کے
ایک اہم بات جس کا ذکر یہاں دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا، وہ راجہ فاروق حیدر خان کا ایک معنی خیز فقرہ ہے جو وزیراعظم بننے کے بعد ان کی پہلی تقریر کا حصہ تھا اور جو شاید انہوں نے سردار سکندرحیات کے نام سے منسوب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی عوام کو آزادی اور آزاد کشمیر کی عوام کو انصاف چاہیے۔ بڑا معنی خیز فقرہ تھا، بڑی گہرائی تھی ان چند الفاظ میں۔ آزادی اور انصاف کو ایک ہی ترازو کے دو پلڑوں میں تولنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں، دونوں کے لیے ایک ہی طرح کی جدوجہد کی ضرورت ہے اور دونوں کے حصول کےلیے کشمیری پچھلے 70 سال سے نبردآزما ہیں۔ آزادی اور انصاف میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا بلکہ دونوں میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انصاف ہی ایک ایسا آلہ ہے جو آزادی کی راہ ہموار کرتا ہے کیونکہ آزادی انصاف کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے انصاف یہ ہوگا کہ ان کو خودارادیت کا حق دیا جائے تاکہ وہ اپنی آزادی کا فیصلہ خود کر سکیں۔ اگر انصاف مل جائے تو آزادی خود بخود مل جاتی ہے۔ آزادی کا فیصلہ لوگ خود کرتے ہیں بشرطیکہ حکمران ان کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ان کوفیصلہ سازی کا حق دے دیں۔
اگر ہم انصاف کے مفہوم کو سامنے رکھیں تو آزادی کا مفہوم اس کے اندر ہی سما جاتا ہے۔ اس منطق کے مطابق تو آزاد کشمیر کے عوام بھی آزاد نہیں ہیں اور نہ ہی ان کو انصاف مل رہا ہے۔ انصاف تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کے منتخب نمائندوں کے سر سے کشمیر کونسل اور ایکٹ 74 کی لٹکتی تلوار کو ہٹا دیا جائے تاکہ وہ آزاد حثیت سے اپنے فیصلے کر سکیں۔ ان کو قانون سازی کا اختیار کہنے کی حد تک تو دے دیا گیا ہے لیکن سیکشن 56 سے ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں کہ نہیں بھائی اگر ہماری مرضی سے ہٹ کر کوئی فیصلہ کیا گیا تو سیکشن 56 کے تحت آپ کی حکومت کو چلتا کر دیا جائے گا۔ انصاف کا تقاضا تو یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر سے پیدا کی جانے والی پن بجلی جو کہ تقریبا اب 2 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی، اس کا نیٹ ہائیڈرل پرافٹ آزاد کشمیر کو دیا جائے اور این ایف سی ایوارڈ میں باقی صوبوں کی طرح آزاد کشمیر کو بھی خاطر میں لایا جائے کیونکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر اس لیے نہ ہو سکی کہ پاکستان کے کچھ خیرخواہوں نے اس کی بھرپور مخالفت کی لیکن دوسری طرف کشمیری عوام نے پاکستان کو روشن کرنے کے لیے اپنے اجداد کی قبروں تک کی قربانی دے دی۔ نیلم جہلم پروجیکٹ سے آزاد کشمیر کا دارالحکومت قدرتی خوبصورتی اور ایک بڑی آبادی پانی سے محروم ہو گئی لیکن کشمیری عوام نے پھر بھی اسے قبول کیا۔
مقبوضہ کشمیر کے لوگ آج بھی 8 لاکھ فوج کے ہوتے ہوئے پاکستان کا پرچم بڑے فخر سے لہراتے ہیں تو کیوں لہراتے ہیں؟ کیونکہ وہ پاکستان سے انصاف کی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں، وہ دو قومی نظریے پر ابھی بھی ڈٹے ہوئے ہیں، اپنی مائوں بہنوں کی عصمتوں کو اپنے سامنے لٹتے دیکھتے ہیں لیکن پاکستان کا جھنڈا مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ ہم کون سے محاذ پر ان کے لیے لڑ رہے ہیں، ہم تو شملہ معاہدے کے تحت سفارتی محاذ کا اختیار بھی کھو چکے ہیں۔
یہی وہ انصاف اور میرٹ ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر کے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ تو کیا کریں پھر جب انسان خدا ہو جائیں۔ اس بار آزاد کشمیر کے عوام نے راجہ فاروق حیدر خان کو ایک بھاری مینڈیٹ اس لیے دیا ہے کہ وہ اسی انصاف کی بات کرتے تھے۔ آزادکشمیر کے عوام کو اب اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ جب اس پار کشمیر میں کوئی ظلم ہو تو ہم قومی اسمبلی میں بیٹھ کر ایک مذمتی قرارداد پاس کروا دیں اور یہ سمجھیں کہ حق ادا کر دیا۔ جس کا دل کرے وہ پیسے دے کر کشمیر کونسل کا ممبر بن کر کشمیریوں کی توہین کرے اور عوام کے وسائل لوٹے۔ ان سب باتوں سے اب کشمیریوں کو کوئی دلچسپی نہیں رہی بلکہ وہ سخت ترین مزاحمت چاہتے ہیں۔ اگر وہ آزادی کے لیے تن تنہا ڈوگروں سے لڑ سکتے ہیں تو انصاف کے لیے کسی ایسی تیسری قوت کے حق میں بھی حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں جو ان کی نسلوں کو انصاف فراہم کر سکے۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے کہ آزاد کشمیر کی فانون ساز اسمبلی کو بااختیار بنانے کے لیے ایکٹ 74 کا خاتمہ کیا جائے۔ آزاد کشمیر کے وسائل کے منصفانہ استعمال کا طریقہ وضع کیا جائے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ کے ماحولیات پر اثرات کو سامنے لاتے ہوئے کوئی جامع حکمت عملی مرتب کی جائے۔ کشمیر کونسل کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے آزاد کشمیر اسمبلی کے اختیارات کو وسیع کیا جائے۔ آزاد کشمیر کی دیرینہ پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تعمیر و ترقی کے منصوبے لائے جائیں۔ مسجلہ کشمیر کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ یہی کشمیری عوام کے دیے گئے مینڈیٹ کے ساتھ انصاف ہوگا اور اس سے تحریک آزادی کشمیر کو تقویت ملے گی۔ یہی آزاد کشمیر کے عوام کا نعرہ ہے، یہی ان کا منشور ہے اور اسی مقصد کے حصول کی خاطر کشمیری عوام نے راجہ فاروق حیدر کو اپنا قائد چنا ہے۔

Comments

Click here to post a comment