ہوم << افغان مہاجرین کی واپسی- رشیداحمد صدیقی

افغان مہاجرین کی واپسی- رشیداحمد صدیقی

TO GO WITH Afghanistan-unrest-Pakistan-refugees,FOCUS by Joris Fioriti (FILES) In this photograph taken on June 19, 2012, Afghan refugees sit in front of trucks at The United Nations High Commissioner for Refugees (UNHCR) registration centre on the outskirts of Peshawar. Hundreds of thousands of Afghans face the threat of deportation back to their war-torn country from Pakistan once a deadline expires June 30, 2012, but Kabul is crying foul over the move. Pakistan is home to 1.7 million refugees and hundreds of thousands more unregistered migrants from its neighbour, according to the UN High Commissioner for Refugees (UNHCR).AFP PHOTO/A. MAJEED/FILES

rasheed
80 کے دہائی کے آغاز میں افغانستان میں سویت مداخلت کے بعد افغانی لاکھوں کی تعدا میں پاکستان آگئے۔ان لوگوں کا اپنے ملک میں کوئی نہ کوئی روزگار اورگھر بار تھے۔ بیشتر بچوں،بوڑھوں اور خواتین کی ساتھ پیدل سرحد پار کرکے آئے تھے۔انسانی فطرت ہے کہ و ہ کیسی منزل کی جانب سفر کرتا ہے۔اپنے گھروں سے نکلتے وقت ان کے ذہنوں میں یہ بات تھی کہ وہ سرحد پار کرکے پاکستان جائیں گے۔جہاں پر ان کے پڑوسی مسلمان اور پختون ہیں۔ہ ان پر بوجھ بنیں گے لیکن ان کو توقع تھی کہ میزبان اس بوجھ کو بخوشی قبل کرلیں گے۔
افغانستان کے حالات جن وجو ہات کی پیداوار تھے،ان میں سے ایک وجہ سویت نظریہ تھا جس کے خلاف افغان بندوق اٹھا کر کھڑے ہوئے تھے اور ان کو گھر بار چھوڑنا پڑا تھا۔بدقسمتی سے پاکستان کے اندر بھی اسی نظریہ کے علمبردار تھے۔ایک طرف یہاں کے پختون وہاں کے پختونوں کو سنھبالنے میں مصروف تھے تو دوسری طرف سویت روس کے نظریاتی علمبردار ان کو امریکی گھوڑے اور افغان بگوڑے کہتے تھے اور یہاں کے سرخ پرچم والے ا افغانستان کے سرخ پرچم والوں کو بھائی قرار دیتے تھے۔ ترکئی ولی بھائی بھائی کے نعرے اب بھی چند پرانے بوسیدہ دیواروں پر تلاش کرکے مل جائیں گے۔مہاجرین کی آمد کی حال یہ تھی کہ ان کو کیمپوں میں بسانے سے پہلے پختون بھائی ان کو سنبھال رہے تھے۔
ایک سروے کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ بن شاہی ثمر باغ کی سرحدی پہاڑی پر جب یہ لوگ آرہے تھے تو جماعت اسلامی کے رضاکار ان کی مدد اور استبقال کے لیے سرحد پر موجود تھے۔وہ ان سے لائے جانے الی اشیا کا بوجھ لیتے تھے اور ان کے ساتھ آنے والے ضعیفوں کوکاندھوں اور پیٹھ پرلاتے تھے۔قریبی گاؤں کے سکولوں اور حجروں میں ابتدائی اورغیر سکاری طور پر ان کو ٹھہرایا جاتا تھا ۔راتوں کو رضاکار گھر گھر جاکر ان کے لیے روٹی اور ترکاری جمع کرکے لاتے تھے اور بعد میں آہستہ آہستہ ان کو کیمپوں میں منتقل کیا جاتا تھا۔ کیمپوں میں خیموں کی تنصیب اور وہاں روشنی، صفائی اور پانی کا انتظام کافی طویل دورانیہ کا کام تھا۔ اس دوران مقامی لوگ ان کی مدد کرتے تھے کیونکہ دونوں جانب پختون تھے۔سرحد پار کرتے وقت ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔آنے والے افغانی جماعت کے رضا کاروں کو نہیں جانتے تھے۔بعض کا خیال تھا کہ یہ حکومت پاکستان کے تنخواہ دار ملازم تھے اور سرکاری فرض کے طور پر امدادی کاموں میں مصروف تھے ،چنانچہ ایک ہٹا کٹا افغان ایک کمزور رضاکار کے پیٹھ پر سوار ہو کر آرہا تھا۔وہ بے چارہ زیادہ وزن کے نیچے پہاڑی راستہ پر آہستہ آہستہ آرہا تھا تو سوار نے کہاتیز چلو تنخواہ کس بات کی لیتے ہو۔۔۔۔
دوسری طرف یہاں سویت نظریہ کے پرچارک اسے روس امریکہ جنگ قرار دینے کا پروپیگنڈا کرنے میں لگے ہوئے تھے اور ان مہاجرین کو افغان بگوڑے امریکی گوڑے کہتے تھے ۔پروپیگنڈا کرنے والے بھی پختون تھے۔لیکن یہ گنے چنے لوگ تھے۔اور سیاسی طور پر ان کے پیروکار ان کی بات کو نظر انداز کرتے تھے وہ پختون ہوتے ہوئے آنے والے پختونوں کے راستے میں کم ازکم رکاوٹ نہیں بن رہے تھے بلکہ بعض صورتوں میں ان کی کافی مدد بھی کر رہے تھے۔
1985تک معاملہ کافی گھمبیر تھا اور لاکھوں مہاجرین یہاں بسائے جا چکے تھے۔اس وقت پاکستان آنے والے خاندانوں میں ایک سال سے15سال کی عمر کے اب30تا پچاس سال کے ہو گئے ہیں۔ان میں سے25تا چالیس سال کے عمر کے لوگ افغانستان کے اندر جہاد میں مصروف تھے اور بیشتر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔گویا جن لوگوں کو پاکستان کا احسان یاد تھا۔وہ اب دوسرے جہان میں ہیں اور جو مہاجرت میں پلے بڑھے یا پیدا ہوئے،وہ پاکستان کو اپنا ایسا ملک سمجھنے لگے جس میں ان کی حیثیت دوسرے ملک کے شہری کی تھی۔یہ بھی فطری بات ہے کہ دوسرے ملک کا شہری یا دو دوسرے درجے کا شمار ہوتا ہے۔ یا نفسیاتی طور پر وہ خود کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں ۔
چنانچہ موجودہ مہاجرین میں سے90فی صد ان نفسیاتی طور پر دوسرے درجے کے شہریوں کی ہے۔جہاد1993میں ختم ہوا ۔اس کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی۔یہ لوگ اس کی ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں چنانچہ پاکستان میں رہتے ہوئے ان میں پاکستان دشمنی کے جزبات ابھرے۔۔۔۔پہلی غلطی یہی ہوئی کہ جہاد بلاشبہ افغانیوں کا اپنا عمل تھا لیکن پاکستان اس کا سب سے بڑا پشتی بان تھا۔جب کامیابی کا مرحلہ آیا تو پاکستان کا فرض تھا کہ اس کو تکمیل تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتا تھا لیکن اس وقت نواز حکومت نے افغانستان کے عبوری انتظام میں ایسی فاش غلطی کی کہ وہاں خانہ جنگی شروع ہوئی۔اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ جن افغانوں کو پاکستان کا ممنون احسان ہونا چاہیے تھا،ان میں نفرت کے بیج بوئے گئے۔اس دوران طالبان آگئے۔ان کو پاکستان ہی نے استحکام دینے کی کوشش کی۔طالبان کی وجہ سے افغانستان دنیا بھر کی توجہ اور دشمنی کا مرکز بن گیا۔بدقسمتی سے حکومت پاکستان نے اس جنگ میں عالمی برادری کا ساتھ دیا۔یوں افغانیوں پر ایک مصیبت کے بعد تیسری مصیبت کی وجہ پاکستان کو قرارا دیا گیا اور وہاں کے عوام میں پاکستان دشمنی کے جذبات مزید گہرے ہو تے گئے۔
ان حالات کا فائدہ حسب روایت بھارت نے اٹھایا اندرون افغانستان بڑے پیمانے پر پاکستان مخالف فضا بنائی۔وہاں تعمیر نو کے کام پر قابض ہوا اور ان کی وزارت خارجہ نے انتہائی کامیابی کے ساتھ پاکستان دشمن افغانستان تعمیر کیا۔ہماری وزارت خارجہ سوئی رہی اور بدقسمتی سے مسلسل وزارت داخلہ افغان امور کو نمٹاتی رہی۔اس سے بھی یہ تاثر ملتا رہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ پاکستان کے ایک صوبہ کے طور پر نمٹ رہے ہیں جبکہ حیقت تو یہی ہے کہ وہ ایک ا لگ مملکت ہے۔
حکومت پاکستان ایک ایسے معاملہ میں جس نے20ویں صدی کا حلیہ بدل دیا۔جس کے نتیجے میں دنیا میں طاقت کا توازن بدل گیا ۔سویت یونین تحلیل ہو گیا۔کمیونزم کا خاتمہ ہوا۔پاکستان کے اندر سویت نظریات کے پرچارکوں نے اپنا قبلہ واشنگٹن کی طرف موڑ دیا۔اس میں بنیادی کردار پاکستان کا تھا ۔لیکن جب ثمرات سمیٹنے کا وقت آیا تو پاکستان اس سے محروم رہا۔یہ بدقسمتی پاکستان کی تھی لیکن افغان قوم کی بدسمتی اس سے کم نہ تھی۔عالمی جنگوں کے بعد اندرونی استحکام وہاں کے لیے ناگزیر تھا۔وہاں کی مقامی قیادت کا فرض تھا کہ اپنی قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے ایک صدی کے دوران برطانیہ،سویت یونین اور امریکہ کو شکست سے دوچار کرنے والی فاتح قوم بن جاتی۔لیکن بدقسمتی سے وہاں کی قیادت امریکہ کی کاسہ لیسی میں لگ گئی۔ان کے لیے سب سے بڑھ کر کام پاکستان کی مدد سے اندرونی استحکام کا حصول تھا۔ لیکن انھوں نے پاکستان کو دشمن کا درجہ دیا۔
عوام ریاست کے بچے ہوتے ہیں اگر پاکستان اور افغانستان میں دوستی ہوتی تو یہ لوگ یہاں مہمان قرار پاتے ۔دشمنی کی صورت میں اس کے بچے ہمارے ہاں یرغمال بن گئے۔پاکستانی سرحد پر فائرنگ کرنا ایسی حالت میں افغان حکومت کو نہ صرف یہ کہ زیب نہیں دیتا بلکہ وہ اس کو سہنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔چناچہ یہی ہوا افغانستان کی اندرونی حالت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ لڑ سکے دوسری جانب یہاں ان کے شہریوں کے لیے ٹھہر جاناممکن نہ رہا اور اب ان کو واپس جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ایسی حالت میں جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا ان مہاجرین میں نوے فی صد پاکستان دشمن جزبات پائے جاتے ہیں اور یہ چالیس سال کی میزبانی کی ممنونیت کی جگہ جبری واپسی کا زخم لے کر جا رہے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کی جغرافیائی اور فطری ہیئت ایسی ہے کہ ان کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔امریکہ اور بھارت لاکھ چاہے تاریخ اور جغرافیہ کو تبدیل نہیں کر سکتے۔پاکستان افغانستان کے لیے تجارتی اور کاروباری منڈی ہے۔ تعلیمی اور علمی درسگاہ ہے۔پشاور کے ہسپتال میں 40فی صد مریض افغانی ہیں۔یہ لوگ یہاں سے جائیں بھی بھی تو یہاں سے بھائیوں جیسا رشتہ برقرار رہے گا۔ان کے یہاں بڑے بڑے کاروبار ہیں اور بین الاقوامی سیاست سے قطع نظر وہ یہاں پاکستانیوں سے بڑھ کر تجارت میں شریک ہیں۔یہ رشتے انمٹ ہیں۔ پاکستان اس کو وزارت خارجہ کا موضوع قرار دے اور افغان حکومت پاکستان کو تاریخ اور جغرافیہ کے آئینہ میں دیکھے تو دوست پاکستان و افغانستان بہ قول اقبال ایشیا کا دل بن سکتا ہے۔ اقبال کے فارسی اشعار ہیں
آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغان درآں پیکر دل است
از فساد اُو فساد آسیا از کشاد اُ و کشا د آسیا
ایشیا میں زرخیزی و خوب صورتی کی علامت ہے اور افغان ملت اس میں دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں پر فساد ہو تو پورے ایشیا میں فساد ہوگا اور یہاں پر خوشحالی ہوگی تو وپوری ایشیا میں خوشحالی ہو گی