عرب بھی دنیا کی کیا عجب قوم تھی، اپنی زبان دانی پر جسے ایسا فخر ہوا کہ کم ہی اپنی زبان پر م ویسا فخر کوئی قوم کر سکی ہوگی. جو قوم خود کو عرب یعنی فصیح اللسان کہے اور اپنے مقابل ساری دنیا کو عجم یعنی گونگی قوم کہے، اندازہ کر لینا چاہیے کہ وہ زبان دانی کی کس اعلیٰ معراج پر ہوگی اور زبان دانی کو وہ کس معراج پر سمجھتی ہوگی۔ عربوں میں اس کی بڑی مثالیں ملتی ہیں، وہاں شعرو ادب کے بڑے ہوش ربا مقابلے ہوتے، ہر قبیلہ اپنے منجھے ہوئے قادر الکلام شعرا دوسروں کے مقابلے میں لاتا، جم کے جی جان لگا کے مقابلے ہوتے. قصہ یہ ہے کہ عزت سے جینے کے لیے جتنی تلوار بازی اور شجاعت و سخاوت ان کے ہاں لازم تھی، شعر میں برتری شاید اس سے بھی زیادہ اہم اور مہم سمجھ جاتی تھی، اس لیے کہ شجاعت و سخاوت میں برتری کا اظہار بھی شعر ہی میں ہوتا تھا، سو قبائل میں اصل مقابلہ پھر شعر کا ہی ہوگیا.شعرو ادب میں کسی سے مات ان کے نزدیک موت تھی، عکاظ کے بازاروں میں، میلوں اور چوپالوں میں قبائل کے آزمودہ اور نامور شعرا مقابل آتے اور پھر اپنے زرخیز ذہن اور قادر الکلامی کے جوہر دکھاتے،اپنے قبیلے کے حق میں زبان دانی کے مظاہرے کرتے۔
اسلام سے قبل کی بات ہے، شعر میں تفاخر اور برتری کے مقابلے کا کوئی ایسا ہی موقع تھا کہ حضرت حسان ؓبن ثابت اور عرب میں مرثیہ کی بے مثل شاعرہ خنساء میں ٹھن گئی. یہ بھی ذہن میں رہے کہ سیدنا حسان کی شعر گوئی کا اسلام میں بڑا بلند مقام اور عالی نام تھا،کتنا بلند؟ اتنا بلند کہ افصح العرب نبی کریم سیدنا حسان کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھواتے، حسان کو منبر پر بٹھاتے اور خود نیچے بیٹھ کے حسان کے شعر سنتے، سیدنا حسان نبی کریم کے متعلق اپنی قادر الکلامی سے مخالفین کو گنگ کر دیتے۔ یہ حسان بن ثابت جن کی شاعری کا اسلام میں ڈنکا بجا اور جو شاعر رسول ہونے کا رفیع الشان مقام پا گئے۔
سیدنا حسان جاہلی دور میں بھی چوٹی کے عرب شعراء میں شمار ہوتےتھے۔ ایک دن کسی مجلس میں نابغہ ذبیانی نے سیدہ خنساء کی بڑی تعریف کردی، انھیں عرب کی سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ جیسے القاب سے نواز دیا، سیدنا حسان اس پر طیش میں آگئے، کڑک کر کہنے لگے: ''نابغہ! تو نے غلط کہا،خنساء سے بہتر تو میرے شعر ہیں ، نابغہ نے جواب دینے کے بجائے خنساء کے طرف دیکھا، سیدہ خنساء نے نے حسان بن ثابت سے مخاطب ہوکر کہا ''تمہیں اپنے قصیدے کے جس شعر پر سب سے زیادہ ناز ہے،وہ شعر پڑھیے''
تب سیدنا حسان نے اپنا یہ چنیدہ شعر پڑھا۔
لنا الجفنات الغریلمعن في الضحیٰ
وأسیافنا یقطرن من نجدة دما
ان اشعار میں اپنے قبیلے کی سخاوت اور شجاعت کو گلوریفائی کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ہمارے پاس مہمان نوازی کے لیے ایسے دیوقامت شفاف چمکتے برتن ہیں، جو چاشت کے وقت مہمانوں کےلیے چمکنے لگتے ہیں، اور ہماری تلواریں بلندی سے خون ٹپکاتی ہیں۔
سیدہ خنساء نے شعر سنتے ہی کہا، آپ کے اس ایک شعر میں آٹھ ادبی غلطیاں ہیں، جن کی وجہ سے آٹھ جگہوں پر یہ شعر بلندی سے گر گیا ہے۔
اب ذرا ان 8 مقامات کا جائزہ لے لیجیے:
1۔ یہاں شعر میں ایک لفظ جفنات استعمال ہوا ہے، عربی میں اس کا معنی ہے، برتن،یہ جمع کا صیغہ ہےمگر ایسا کہ جس کا اطلاق دس سے کم پر ہوتا ہے، اسے جمع قلت کہا جاتا ہے، یعنی ایسی جمع جو قلت یعنی دس سے کم پر دلالت کرے. سیدہ نے کہا کہ جمع قلت کے اس صیغے یعنی جفنات کی جگہ جفان ہوتا تو معنی میں وسعت و مبالغہ پیدا ہوتا اور شعرمعانی میں سر بلند ہوجاتا۔
2۔پھر یہ کہ برتنوں کے چمکنے کے لیے عربی کا لفظ غر استعمال کیا گیا ہے، غر پیشانی کی سفیدی کو کہتے ہیں، اس کے بجائے بیض کالفظ موزوں تھا، تاکہ محض پیشانی کی چمک کے بجائے پورے برتن کی چمک کا معنی پیدا ہوسکتا۔ ظاہر ہے پورے وجود کی چمک کے بجائے محض پیشانی کی چمک سے معنی اور زور کلام میں کمی ظاہر ہو رہی ہے۔
3۔ پھر شعر میں چمک کے لیے ایک لفظ یلمعن برتا گیا ہے، لمع عربی میں عارضی چمک کو کہتے ہیں اس کے بجائے یشرقن بہتر تھا، کیونکہ اشراق ، لمعان سے زیادہ دیرپا ہے۔ پھر یہ بتایا گیا کہ برتن چاشت کے وقت چمکتے ہیں، یہاں ضحیٰ کے لفظ سے دجیٰ بہتر تھا کیونکہ روشنی سیاہی میں زیادہ قابل وقعت ہوتی ہے۔ تلواروں کے لئے برتا گیا لفظ اسیاف پھر جمع قلت کا صیغہ ہے، سیوف کہنا چاہیے تھے۔ تلواروں سے خوں ٹپکنے کے لئے برتے گئے لفظ یقطرن یعنی قطرہ قطرہ ٹپکنے میں وہ خوبی نہیں ، جو یسلن یا یجرین یعنی لگا تار اور موسلا دھار خوں بہنے میں ہے،اسی طرح لفظ دم کے بجائے دماء ہونا چاہیے تھا، جس میں کثرت بہنے میں کثرت کامفہوم ہے۔ پھر سیدہ نے شعر کے معنی پر کلہاڑا چلایا، فرمایا ، چاشت کے وقت مہمانوں کے لئے برتن چمکنے میں تو نرا عیب ہے کہ جب اتنے مہمان نہیں آ سکتے، یہ بخیلی اور عیب ہے، خوبی اور مہمان نوازی نہیں۔ مہمان نوازی یہ کہ کھانا عشا کے وقت سروکیا جائے جب مہمان زیادہ اور آسانی سے آ سکیں، اور ان کی رات کے بسرام کا بھی انتظام کیا جا سکے۔
4۔ پھر یہ بتایا گیا کہ شعر میں بتایا گیا کہ برتن چاشت کے وقت چمکتے ہیں، یہاں ضحیٰ کے لفظ سے دجیٰ بہتر تھا کیونکہ روشنی سیاہی میں زیادہ قابل وقعت ہوتی ہے۔
5۔ تلواروں کے لیے برتا گیا لفظ اسیاف پھر جمع قلت کا صیغہ ہے، سیوف کہنا چاہیے تھے۔
6۔تلواروں سے خوں ٹپکنے کے لئے برتے گئے لفظ یقطرن یعنی قطرہ قطرہ ٹپکنے میں وہ خوبی نہیں ، جو یسلن یا یجرین یعنی لگا تار اور موسلا دھار خوں بہنے میں ہے.
7۔اسی طرح لفظ دم کے بجائے دماء ہونا چاہیے تھا، جس میں بہنے میں کثرت کامفہوم ہے۔
8۔ پھر سیدہ نے شعر کے معنی پر کلہاڑا چلایا، فرمایا ،چاشت کے وقت مہمانوں کے لئے برتن چمکنے میں تو نرا عیب ہے کہ جب اتنے مہمان نہیں آ سکتے، یہ بخیلی اور عیب ہے، خوبی اور مہمان نوازی نہیں۔ مہمان نوازی یہ کہ کھانا عشا کے وقت سروکیا جائے جب مہمان زیادہ اور آسانی سے آ سکیں، اور ان کی رات کے بسرام کا بھی انتظام کیا جا سکے۔
یہ ایک خاتون کی زبان دانی کی بات ہے، جس نے اپنے وسعت خیال سے ایک شعر پر نقد کرکے دانش کے فوارے بہا دیے۔
اب اس تناظر میں صرف ایک بات دیکھیے کہ جہاں زبان دانی اور شعر و ادب کے ایسے پارکھ پائے جاتے ہوں،ادھر قرآن انھیں چیلنج پر چیلنج دیے جاتا ہو کہ اس جیسا کلام بناکے دکھاؤ ، اگر جن و انس بھی جمع کر سکتے تو کرلو یہ کرکے دکھاؤ ، اس میں کوئی غلطی نکال کے دکھاؤ اور ادھر غلطی نکالنے والے ایسے قادر الکلام ہوں، جس کی ایک جھلک ابھی آپ دیکھ چکے،اور پھر بھی وہ عربی ادب کی ساری غلطیاں ہمارے کسی عربی نہ جاننے والے پر چھوڑ دیں، تو یہ واقعی ایک ایسی بات ہے، جس پر عقل کو داد دی جانی چاہیے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ کس کو کتنی داد دے سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے