ہوم << عظیم مزاحمتی شاعراورسب کے دلوں کا حبیب - اعجاز شیخ

عظیم مزاحمتی شاعراورسب کے دلوں کا حبیب - اعجاز شیخ

مزاحمتی اشعار کے خالق، حق وصداقت کے علمبردار اور ہر وقت ظلم واستبداد کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہونے والے مزدوروں، غریبوں، محنت کشوں اور تاریخ اردو ادب میں اپنی نوعیت کے واحد شاعر،حبیب جالب کو 12مارچ 2025 کو دنیا سے رخصت ہوئے 32 برس ہوگئے۔ ہم انھیں دنیا کے دیگر عظیم مزاحمتی شعرا قاضی نذر الاسلام ( بنگلہ دیش)، ناظم حکمت (ترکی)، بابلونردوادا (ہسپانوی)، محمود درویش (عربی)، مایا کوفسکی (روس) کی صف میں بڑے فخر کے ساتھ شامل کرسکتے ہیں۔ مذکورہ شعرا نے جس طرح اپنی مزاحمتی شاعری سے اپنے عوام کو متاثر کیا، اسی طرح بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر حبیب جالب نے ہمارے معاشرے ، عوام بلکہ پورے براعظم ایشیا سمیت دنیا میں جہاں جہاں اردو زبان سمجھی اور بولی جاتی ہے ان سب کو متاثر کیا ۔والدین نے ان کی تربیت بھی بہت خوب کی اس کی ایک جھلک ملاحظہ کریں۔

حبیب جالب کی والدہ رابعہ بصری اپنے نام کی طرح اسم بامسمی تھیں. ایک بار وہ اپنے پوتی پوتوں کو لے کر کورٹ میں بیٹے سے ملنے آئیں، جہاں جیل سے انہیں جج کے سامنے پیشی کے لیے لایاگیا تھا۔ پولیس والوں سے ماں نے چند لمحوں کےلیے بیٹے کے ہاتھوں سے ہتھکڑیاں کھولنے کی درخواست کی جسے انہوں نے یہ کہہ کر نظر انداز کردیا کہ یہ سرکار کا بہت بڑا باغی ہے، بھاگ جائے گا تو اس کی جگہ ہم پھانسی پر لٹک جائیں گے. جس پر بوڑھی ماں نے جواب دیا ’’۔ یہ میرا بیٹا ہے، یہ شیر ہے کوئی گیدڑ لومڑ نہیں جو بھاگ جائے گا۔ اسے بھاگنا ہوتا، سرکار یا پویس کا خوف ہوتا تو یہ تمہارے ہاتھ ہی کیوں آتا، اس کی بیڑیاں کھول دو ،یہ اپنے وعدے کا پکا ہے ،اس نے کسی کو زندگی میں آج تک دھوکا نہیں دیا، کیونکہ میں نے اسے ہمیشہ جاگتے میں دودھ پلایا ہے‘‘۔ جس پر جالب کی بیڑیاں کھول دیں گئیں۔

1943کے بعد سے جالب اپنے بڑے بھائی مبارک مشتاق، کے پاس دہلی میں سکونت پذیر تھے، ان کے ہمراہ دہلی میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کے لیے جاتے، جہاں بڑے بڑے مشاعروں میں آپ نے جگر وجرات اور بے خود وسائل کو بھی خوب سنا اور ان سے راہ ورسم بھی بڑھائی۔ یہ 1944۔1945 کازمانہ تھا، تحریک پاکستان بھی اپنے شباب پرتھی، اس میں حبیب جالب نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔

دہلی بالخصوص اپنے رہائشی علاقے تیمار پور میں منعقد ہونے والے جلسوں، اجتماعات میں مولانا ظفر علی خان اور علامہ اقبال کا کلام اپنی پرنم آواز میں اسٹیج پر پڑھا کرتے تھے ۔ قیام پاکستان کے دن 14اگست کو اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ دہلی سے کراچی آگئے، یہاں بندرگاہ پرمحنت مزدوری کرنے لگے۔1948ء میں کراچی کے مشاعروں میں باقاعدہ شریک ہوکر اپنا کلام نذر سامعین کرناشروع کیا، اس وقت آپ 20 سالہ نوجوان تھے۔1949میں منقطع تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔

گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول جیکب لائن کراچی میں میٹرک میں داخلہ لیا، جہاں سینئر کالم نگار نصر اللہ خان اور اے ٹی چودھری کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ اسی دوران روزنامہ جنگ اور ڈان اخبار میں بطور پروف ریڈر ملازمت بھی کی،بعد ازاں1951میں حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1954میں ہاری تحریک کے تحت ہونے والے احتجاجی جلسے میں شرکت کے لئے کراچی آئے اور گرفتار ہوگئے۔ یہ ان کی پہلی گرفتاری تھی۔ لیکن جلد ہی رہائی مل گئی ۔1954ہی میں پہلی بار مشاعروں میں شرکت کی غرض سے ہندوستان گئے، جہاں دہلی ، بمبئی، حیدرآباد، لکھنو، ناگپور اور دیگر شہروں میں منعقدہ ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کی اور اپنی شاعری سے ہندوستان بھر کے لوگوں کے دل جیت لیے۔

1956میں دو بندھنوں میں بندھ گئے، یہ ایسے مضبوط بندھن تھے جنہیں صرف موت کا فرشتہ ہی ختم کرسکا، حالات کی سنگینیاں اور ظلم وجبر کی کھٹنائیاں بھی جالب کے پائے استقلال میں لرزش پیدا نہ کرسکیں۔ ایک بندھن اپنی فرسٹ کزن ممتاز بیگم سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا تھا جبکہ دوسرا رشتہ،عوامی نیشنل پارٹی کی رکنیت تھی جس سے وہ زندگی بھر جڑے رہے۔

متعدد بار سرکاری ودرباری وغیر سرکاری تمام طرح کی ترغیبات ولالچ دیں، دھونس ،دھمکیاں دینے سمیت کوئی حربہ کارگرثابت نہ ہوسکا اور وہ کسی بھی قیمت پر نہ تو ANP سے مستعفی ہوئے اور نہ ہی اپنی مزاحمتی شاعری کو خیرباد کہہ کر درباری یا عمومی شاعر بننے پر رضا مند ہوئے بلکہ سچ اور حق پر مزید ڈٹ گئے۔ ہر دور میں مصائب وآلام کے طوفان ان سے ٹکراتے رہے مگر وہ ہرظلم وستم کے سامنے چٹان بن کر کھڑے رہے اور قلم کی حرمت کو کبھی پامال نہیں ہونے دیا۔

پل دوپل کے عیش کی خاطر کیا دبنا کیا جھکنا
آخرسب کو ہے مر جانا سچ ہی لکھتے جانا

ان کی پہلی کتاب’’برگ آوارہ‘‘ منظر عام پر آئی، تو اس وقت جالب 28سال کے تھے ،مگر بڑے بڑے شعرا سے زیادہ نامور ہوگئے تھے۔ 1958 میں والدین، بہن بھائیوں اور اپنی اہلیہ کےہمراہ مستقل قیام کے لیے لاہور منتقل ہوگئے۔ اہل لاہور نے ان کا زبردست استقبال کیا۔ اکتوبر 1958میں ایوب خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو حبیب جالب نے اس کی زبردست مخالفت کی اور جب انھوں نے اقتدار کو طول دینے کے لیے اپنی مرضی کا قانونی دستور تیار کرکے نافذ کیا تو اس کے خلاف بھی سراپا احتجاج بن گئے، اس موقع پر جو کچھ لکھا وہ ملک کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ ملاحظہ کریں

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
و ہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

اس کے بعد جالب پر بیرونی ملک سفر پر پابندی عائد کردی گئی. اگرچہ ان کو ملک کی سرحدوں تک محدود کردیا گیا لیکن ان کے الفاظ آزاد فضاوں میں سفر کرتے ہوئے دنیا کے ہرکونے تک پہنچ گئے۔ ایوب خان تمام تر طاقت و اختیارات اور وسائل کے باوجود اپنے سامنے جھکا نہ سکے، بلکہ حبیب جالب صدر ایوب کے سامنے ڈٹ جانے والی مادر ملت فاطمہ جناح کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلتے رہے۔ 1964میں انہیں اقدام قتل کے جھوٹے کیس میں گرفتار کرکے سیشن جج سے سات سال کی سزا دلوائی گئی لیکن حبیب جالب نے ہمت نہیں ہاری انہوں نے نہ تو مادر ملت کا ساتھ چھوڑا اور نہ صدر ایوب خان کی ڈکٹیشن قبول کی۔ پھر انہیں علم بغاوت بلند کرنے پرپابند سلاسل کر دیا گیا مگرحق کی راہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹایا جاسکا۔

1966 میں حبیب جالب کی دوسری کتاب ’’سرمقتل‘‘ اشاعت پذیر ہوئی۔ فروری1967میں حبیب جالب کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا۔ وہ دراصل حمید نظامی مرحوم کی برسی کے موقع پر جلسے میں شریک ہوئے۔ جلسے کی صدارت ذوالفقار علی بھٹو کر رہے تھے ۔ حبیب جالب نے پھر ڈکیٹٹر کے خلاف نظم پڑھی اور جالب کو پس زنداں جانا پڑا، گرچہ کچھ عرصے بعدرہا کردئیے گئے اور ساتھ ہی1969 میں ایوب خان کے خلاف چلنے والی ملک گیر تحریک نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اس تحریک کی پشت پر حبیب جالب کے افکار نمایاں تھے اور ان کی قیدوبند کی صعوبتوں کے اثرات بھی تحریک بن گئے تھے۔

اقتدار یحیٰ خان نے سنبھالا، انہی دنوں کراچی کے کڑک ہال میں طلبہ کا جلسہ تھا۔ جالب صاحب مائک پرآئے تو خیال یہی تھا کہ وہ ایوب خان کے خلاف کوئی نظم سنائیں گے مگر انہوں نے کہا ’’حضرات ایوب خان چلاگیا اب اس کے خلاف کچھ پڑھنا میں بزدلی سمجھتا ہوں، آج میں نئے فوجی حکمران جنرل یحیٰ خان کے خلاف تازہ اشعار سناوں گا۔ ملک میں اس وقت بڑا سخت مارشل لا تھا یوں بھی ایوب خان کے خلاف طویل جدوجہد کے بعد سیاسی پارٹیاں تھک سی گئی تھیں، جالب صاحب کی بات سن کر ہال میں سناٹا چھاگیا اور پھر جالب نے اپنی وہ غزل سنائی جس نے بعد میں بڑی شہرت ہائی۔ ایک شعر ملاحظہ کریں:

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پر اتنا ہی یقیں تھا

1970 میں حبیب جالب نےاے این پی کے پارٹی ٹکٹ پر پنجاب سے الیکشن لڑا لیکن دیگر سیاسی جماعتوں اور سرکاری سازش کے تحت انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ دلبرداشتہ نہیں ہوئے بلکہ اپنے مقصد کے حصول میں اور زیادہ مستحکم ہوگئے۔

جب اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے پاس آیا تو وہ حبیب جالب سے اور جالب ان سے حد درجہ متاثر تھے. یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو انہیں اپنی ہر تقریب میں مدعو کرتے ۔ اسی طرح کی ایک دعوت میں بقول تنویر قیصر شاہد… جالب ، مجھے ایک روز بھٹو سے اپنی ابتدائی ملاقاتوں کا احوال سنارہے تھے، کہنے لگے کہ ایک مرتبہ مجھے بصد اصرار بھٹو صاحب نے اپنے گھر لاڑکانہ بلایا، میں چند روز ان کے ہاں قیام پذیر رہا۔ اسی دوران ایک دن انہوں نے مجھے طالب المولیٰ سے ملوایا اور کہا کہ انہیں کچھ شعر سناؤں۔ میں نے اپنی طبیعت کے مطابق طالب المولیٰ کو اپنی نظم ’’ پاکستان کا مطلب کیا ‘‘ کا یہ بند سنادیا۔

کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لیٹروں سے لے لو
ملک اندھیروں سے لے لو
رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الا اللہ

جونہی یہ بند سنایا، طالب المولیٰ چلے گئے ۔ان کےجانے کے بعد بھٹو نےکہا، یہ تم نے کیا کردیا، معلوم ہے وہ سندھ کا سب سے بڑا جاگیردار ہے۔ میں نے کہا’’ تو کیا ہوا؟ کیا میں اس کے سامنے یہ کہتا کہ ’’کھیت وڈیروں کو دے دو‘‘۔ اس کے بعد حبیب جالب کا وقت کے ہر حکمران سے جھگڑا شروع ہوگیا۔

لاہور کے اہل قلم نے مشترکہ طور پر حبیب جالب کو زبردست خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ’’حبیب جالب…فن اور شخصیت‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی،جس کا رنگین ٹائٹل عالمی شہرت یافتہ ممتاز مصور صادقین نے خود خواہش ظاہر کرکے بنایا، اور حبیب جالب کے ایک قطعے کی خطاطی بھی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ روس کی سب سے زیادہ معروف وممتاز اور عالمی شہرت کی حامل درسگاہ ممباسا یونیورسٹی میں حبیب جالب کی پچاسویں سالگرہ بڑے اہتمام سے منائی گئی، ساتھ ہی حبیب جالب کو کارل مارکس اورلینن کے مسجمے(جنہیں خاص دھات سے بنایا گیاتھا) بھیجے گئے۔

25 دسمبر 1980 کو اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت اسلام آباد پریس کلب میں منعقدہ تقریب میں تو جالب نے حد ہی کردی۔ اس موقع پر جلسے کی صدارت سید سبط حسن کررہے تھے اور ملک بھرکے تمام چوٹی کے ادیب اور شاعر حضرات وہاں موجود تھے۔ جالب نے درج ذیل نظم پہلی بار پڑھی جو بعد میں شہرہ آفاق بنی، اس کا ایک شعر ملاحظہ کریں:

ظلمت کو ضیا صرصر کوصبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کوگہر، دیوار کودر، کرکس کو ہما کیا لکھنا

اس کے بعد حبیب جالب پر ضیا دور کا عتاب شروع ہوگیا اور آپ اسی دن پریس کلب سے سیدھے میانوالی جیل بھجوادیے گئے۔ جہاں آپ نے دیکھا کہ کئی بڑے بڑے ادیب وشاعر جیل سے رہائی کے لیے ضیاالحق کے نام درخواست لکھ رہے ہیں۔ آپ نے انہیں غیرت وحمیت دلائی اور کہا کہ

دوستو جگ ہنسائی نہ مانگو
موت مانگو رہائی نہ مانگو

1988ء میں ضیاالحق کا دور اختتام پذیر ہوا اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں، اس وقت اعتزازاحسن وزیرداخلہ تھے جنہوں نے حبیب جالب کو نہ صرف رہائی دلائی بلکہ ان کا ضبط شدہ پاسپورٹ بھی بحال کرایا۔بے نظیر شہید ضیاالحق کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف چٹان بن کرکھڑی ہوئیں تو حبیب جالب بھی ان کی تحریک کا حصہ تھے، اور شاید جالب نے خود پر یہ فرض عائد کرلیا تھا کہ وہ جب تک زندہ ہیں ہردور میں اور ہر سطح پر مظلوم کا ساتھ دیں گے، خواہ سیاسی طور پر وہ مظلوم کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو، حالانکہ حبیب جالب کا تعلق پی پی سے نہیں تھا لیکن وہ حمایت میں اس قدر آواز اٹھاتے رہے کہ خود بے نظیر شہید کو ان پر فخر تھا، وہ کہا کرتی تھیں کہ ’’اگر ملک میں چند ایک اور ادیب شاعر حبیب جالب جیسے نہ سہی کم ازکم ان کے سچے پیروکار ہی بن جائیں تو ملک میں کسی ڈکٹیٹر کی ڈکٹیٹر شپ قائم نہیں رہ سکتی ‘‘۔ حبیب جالب نے ضیا کے دور میں محترمہ بھٹو کے حوالے سے یہ نظم کہی جو بہت زیادہ مشہور ہوئی۔

ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے

1989ء میں فارسی کے عظیم شاعر مولانا نورالدین جامی کی پانچ سوپچھترویں سالگرہ کے موقع پر حبیب جالب نے روس کا دورہ کیا جہاں اکادمی آف سائنسز میں نے مولانا جامی کے لیے نظم پڑھی جس کا روسی زبان میں ترجمہ معروف ادیب نومیلا نے پیش کیا۔ اگست 1992 میں حبیب جالب کو بیماری نے آلیا۔ 12،13مارچ 1993ء کی درمیانی شب 65 سال کی عمر میں یہ کہتے ہوئے ہمیشہ کے لیے سوگئے۔

اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سوگئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے