ہوم << میں قربان (4) - فرح رضوان

میں قربان (4) - فرح رضوان

نادیہ جڑواں بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی ،شوکت اس بات پر بہت خوش تھا، البتہ بیٹے سعد سے وہ بہت نالاں رہتا کہ یہ ہر وقت روتا کیوں رہتا ہے. شوکت کی ماں زندہ تھیں تو سعد کے مغرب کے وقت رونے پرتو بہت زیادہ ہی ناراض ہوا کرتیں. نادیہ اس بات کی پابند کر دی گئی تھی کہ کچھ بھی ہو جاۓ مغرب کے وقت بچہ ہرگز نہ روئے کیونکہ ان کے بزرگ نسل در نسل بتاتے آئے تھے کہ اس سے گھر میں نحوست آتی ہے. یہی بات شوکت نے بھی گرہ میں باندھ لی تھی، لیکن نادیہ کو لگتا تھا کہ اس بات کو سعد نے کہیں زیادہ ہوشیاری سے سمجھ لیا ہے کہ اس وقت جب میں روتا ہوں، تو میری کوئی بھی ضد پوری کر دی جاتی ہے، تو ادھر مغرب ہوتی ادھر یہ چار سالہ بچہ کبھی پیٹ میں درد کا بہانہ کرکے روتا، کبھی کوئی فرمائش کرکے پچھاڑیں کھاتا، تو شوکت نادیہ پر بھڑک جاتا کہ " چپ کرا اس منحوس کو ،مار اس کے منہ پر جو بھی مانگ رہا ہے،تاکہ اس کا بھونپو بند ہو." نادیہ کے بس میں ہی نہ رہتا کہ اسے کسی مناسب طریقے سے چپ کروا سکے. صابرہ البتہ اس معاملے میں سعد کو بلا دریغ تھپڑ بھی مار دیا کرتی تھی، جس پر نادیہ دل مسوس کر رہ جاتی کہ اس بندی کو روکا تو یہ ایک نیا فساد کھڑا کر دے گی، جو کئی دن چلے گا ،اور آخر میں معافی نادیہ کو ہی مانگنی پڑے گی. اسے ان حالات سے نجات کا ایک ہی ذریعہ دکھائی دیتا تھا کہ کسی طرح صابرہ کا گھر بس جائے.
---------------------

"سوال ہی پیدا نہیں ہوتا " منیبه نے حتمی لہجے میں وقاص کو جواب دیا. وقاص ایک پل کے لیے تو گنگ رہ گیا، پھر بھرپور قوت سے ٹیبل لیمپ اٹھا کر زمین پر پھینکتے ہوئے چلا کربولا "تمھاری اتنی ہمت ہو گئی ہے کہ تم اپنے مجازی خدا کو اس انداز میں جواب دو". لیمپ تو ٹکڑے ٹکڑے ہوا نظر آرہا تھا، منیبه کی شخصیت کے ٹکڑے وقاص کی غضب ناک نگاہوں کو بھلا کیسے دکھائی دےسکتے تھے. وہ جی بھر کر الفاظ کے چاقو چھرے نشتر اپنی بیوی پر چلاتا رہا، حتی کہ اس کا سانس بے قابو ہونے لگا ، تو ڈری سہمی منیبه نے ہی بھاگ کر اسے پانی لا کر دیا ،جس پر وقاص نے مزید لعن طعن شروع کر دی. منیبه نے دل ہی دل میں آیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی کہ کسی صورت اس کے میاں کا غصه کم ہو، لیکن نہیں وہ بضد تھا کہ "اپنے والدین کو بلاؤ ، میں ابھی فیصلہ کرنا چاہتا ہوں، مجھے اتنی خودسر بیوی کی کوئی ضرورت نہیں، اور اتنے گھٹیا خیالات تمھارے دماغ میں پلتے ہیں کہ تم میرے چھوٹے چھوٹے معصوم بھانجوں پر گھناؤنے الزام لگاتے ہوئے اللہ کے قہر سے نہیں ڈرتیں." اس کے ساتھ ہی اس نے کف اڑاتے ہوئے منیبہ کو بیشمار بد دعائیں دینی اور اس کے خاندان کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا .بار بار اس کی وہی رٹ تھی کہ بلاؤ اپنے ماں باپ کو …..کچھ دیر گزری وقاص کچھ خاموش ہوا تو منیبه نے پانی کا گلاس اسے تھمایا، اس بار وقاص نے گلاس اس سے لیا اور ایک سانس میں پی کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے نفرت سے منیبه کو دیکھا اور بستر پر جاکر لیٹ گیا. کچھ ہی دیر میں وہ گھوڑے بیچ کر خراٹے لے رہا تھا.
--------------------

صابرہ اپنے زیور اور کپڑوں کے شوق پورے کرنے کے لیے گھر پر بچوں کو ٹویشن پڑھانا چاہتی تھی ،یہ فرمائش سن کر نادیہ نے سر پکڑ لیا کہ اب ٹیچر بن کر محلے کے بچوں پر اپنا غصه نکالا کرے گی، اور ہوا بھی یہی، بچے پڑھنے آنا شروع ہوئے لیکن ہفتہ بعد ہی غصے میں کسی بچے کو صابرہ نے تھپڑ لگایا، وہ روتا ہوا گھر کو دوڑا اور اس کی ماں خالہ ممانی سب کے سب صابرہ کو سبق سکھانے اس کے سر پر پہنچ گئیں. بہ مشکل صابرہ کو ان کے قہر سے بچا کر انہیں گھر واپس بھیجا، اور یہ سلسله اسی کے ساتھ ختم ہوگیا،لیکن اس دن کے بعد سے صابرہ کو یہ سمجھ آگیا کہ کسی کی اولاد کو مارو تو ماں کے دل پر کیا گزرتی ہے.

پھر کچھ دن بیڈ پر پڑے گزارے. اس دوران کسی رسالے میں اشتہار دیکھ کرصابرہ کو ایک نیا خیال آیا کہ میں پارلر میں کام کر لیتی ہوں. بھائی سے کہہ سن کر اجازت اور فیس مل ہی گئی، تو اس نے چھوٹے سے پارلر پر ٹریننگ لینی شروع کر دی، مگر نوکری شروع کرتے ہی وہاں بھی اس کے جھگڑے ہونے لگے. بہرحال مختلف جگہوں پر تھوڑا تھوڑا کام کرتے وہ ایک درمیانے درجے کے بیوٹی سیلون میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی. ان چند ماہ میں اس نے کئی ایسے اسباق بھی سیکھے جو والدین اور اساتذہ سے نہیں سیکھ پائی تھی. شکل صورت اچھی تھی، پہننے سجنے کا شوق تھا، پارلر میں یہ سبھی شوق پورے ہو رہے تھے تو خوش تھی. اونر اور ساتھ کام کرنے والی لڑکیاں اچھی تھیں، وہ ان سے بھی بہت کچھ سیکھ رہی تھی،اٹھنا بیٹھنا، بولنا، مذاق کرنا اور سمجھنا ،اس کی زندگی میں سہیلیاں تھیں نہ کزنز ، ابا نے اماں پر ان کے میکے سے تعلق رکھنے پر پابندی لگائی رکھی تھی، اور اماں نے بدلے میں ابا کے رشته داروں سے بنا کر نہ رکھی تھی، تو ملنا جلنا ،کسی کو کچھ بنا کر کھلانا، کسی کے گھر جاکر کھانا،رہنا، برداشت کرنا، سہولت دینا،محبت سے لاڈ دکھانا، خالہ پھپھو ماموں چاچو ان سب کی فیملی کا پیار اس نے کبھی چکھا ہی نہ تھا،نہ باپ کو نبھاتے دیکھا نہ ماں کو درگزر کرتے، تو وہ یہ سب کس سے سیکھتی ؟ والدین ایک دوسرے پر گولے برساتے تو بارود کی بو اسے اپنی روح تک اترتی محسوس ہوتی. وہ لڑکی تھی، گھر میں ہی رہتی، باپ کے جانے کے بعد گھنٹوں اپنی ماں سے اس باپ کے لیے صرف برائی ہی سنتی جو پوری دنیا میں واحد شخص تھا جو اس کے ناز اٹھاتا تھا. وہ بچپن سے بہت اکیلی تھی اور بعد میں اپنے رویوں کی بنا پر تنہا رہ گئی تھی، اسی لیے ہر وقت دفاعی رویه اختیار کیے رکھتی، شروع سے کوئی ایسا قریب نہ تھا جو ہاتھ پکڑ کر اس کے والدین کوجھگڑوں سے باز رکھ سکتا.
--------------------

منیبہ نے سب سے پہلے کمرے کا دروازہ کھولا اور بچوں کے کمرے میں جھانکا، وہ اس قدر تھک کر سوۓ ہوئے تھے کہ اس جھگڑے اور توڑ پھوڑ سے ان کی نیند میں خلل نہیں پڑا تھا ، اس نے دل میں شکر کیا اور سب سے پہلے کسی روبوٹ کی مانند لیمپ کی کرچیاں سمیٹیں. یہ الگ بات ہے کہ روباٹ کی آنکھیں خشک ہوتی ہیں.
منیبه کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے قدردان شوہر کے ہاتھوں اس قدر ذلت کا دکھ مناۓ، نفرت کی ان چنگاریوں کے درد کو ترجیح دے، بد دعاؤں کی بازگشت کو چپ کرواۓ یا اس رویے پر حیرت کے پہاڑ سر کر جاۓ، جو ایک ہوش مند باپ کا کبھی بھی نہیں ہونا چاہیے تھا. دل درد سے تڑپنے لگا تو وہ تکیہ لے کر کچن میں چلی آئی اور اپنے اندر کی تمام تر چیخیں اس تکیے کے کانوں میں منتقل کر دیں. وہ بہت دیر تک ہچکیوں سے رو رو کر اپنے رب سے فریاد کرتی رہی کہ اس کے گھر اور بچوں کی مکمل حفاظت فرمانا. پھر منہ ہاتھ دھو کر بستر پر آگئی. وہ اتنی زیادہ توانائی کھو چکی تھی کہ لگتا تھا بستر پر جاتے ہی ڈھیر ہو جاۓ گی، لیکن دماغ بھاگ رہا تھا، غیرت بہت شور مچا رہی تھی. اس نے سب کو ڈانٹ کر چپ کروایا اور باتوں کو ترتیب سے رکھنا شروع کیا کہ جھگڑا شروع کہاں سے ہوا تھا؟ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، بچے برش کر کے کب کے سونے جاچکے تھے، منیبه بیڈ پر بیٹھی نائٹ کریم سے چہرے کا مساج کر رہی تھی، تب وقاص اپنا بریف کیس سیٹ کر کے ایک طرف رکھتے ہوئے منیبه سے کہنے لگا کہ "حسن کہہ رہا تھا کہ اب میں بڑا ہو گیا ہوں، ماما کے بغیر بھی بڑی پھوپھو کے گھر رک سکتا ہوں تو کیوں نہ چھٹیوں میں "…ابھی وقاص بہت پر جوش طریقے سے اپنے بیٹے کے بڑے ہونے اور اس کی بہادری کو اینجواۓ کر رہا تھا کہ منیبه کے منہ سے یہ الفاظ برآمد ہو گۓ " سوال ہی نہیں پیدا ہوتا "، اور پھر وہ صورتحال پیدا ہو گئی تھی جس کے بعد اسے لگ رہا تھا کہ وقاص کی محبت کا بت پاش پاش چکا ہے. تو کیا غلطی میری تھی ؟ کتنی بڑی غلطی تھی جس پر یہ سب کچھ جھیلنا پڑا ؟ آنسو پھر سے اس کے تکیے میں جذب ہونے لگے.

اگلی صبح بغیر کوئی بات کیے وقاص دفتر چلا گیا . دن میں جب بہت دیر تک اس کی کال نہیں آئی تو منیبہ نے ہی ہمت جمع کر کے اسے فون کیا اور دل سے شکر کیا کہ وقاص نے فون اٹھا لیا. اس نے سب سے پہلا جملہ یہ کہا کہ "میں آپ کے سامنے اپنی غلطی تسلیم کرنا چاہتی ہوں، اور اللہ کے سامنے بھی"، وقاص کا موڈ ایک دم بہتر ہوگیا، وہ کہنے لگا کہ" یار تم مجھے اتنا غصہ نہ دلایا کرو نا، کہیں میرے دماغ کی کوئی نس پھٹ گئی تو پھر روتی رہو گی ساری عمر، اچھا چلو بتاؤ آج شام کہاں چلنا ہے ؟ جہاں کہو گی، وہیں چلتے ہیں." منیبه نے بہت فرم لہجے میں کہا" بڑی آپا کے گھر " "بکواس بند کرو " وقاص نے زہریلے لہجے میں کہہ کر فون پٹخ دیا.
.
منیبہ کو یقین تھا کہ وقاص شام تو کیا ابھی دفتر سے آدھی چھٹی لے کر پہنچے گا ،لیکن تب کیا ہوگا ؟ کیا کل کی طرح پھر ؟ بچوں کے سامنے ؟ اس نے گڑگڑا کر اپنے رب سے حفاظت کی دعا کی. نہ جانے کس سپیڈ میں گاڑی چلی ہو گی کہ وقاص کچھ ہی دیر میں گھر پر تھا . اس بار اس نے یہ راگ نہیں الاپا کہ اپنے اماں ابا کو بلاؤ بلکہ بچوں سے کہا کہ وہ نانی کے گھر جارہے ہیں، تو بچے خوش ہو گۓ. منیبه کا خون خشک ہو گیا کہ کیا امی ابا کے سامنے میرا شوہر عدالتیں لگاۓ گا؟ تب مجھے کیا کرنا ہوگا ؟ امی ابا کیسے برداشت کر سکیں گے وہ سب ؟ میں ان کی بے عزتی کیسے برداشت کر سکوں گی ؟

لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اس امتحان سے بچا لیا تھا. بچے نانی کے گھر اترے تو وہ بھی خوش ہو گئیں. وقاص نے دفتر کی فیملی گیٹ ٹوگیدر کا بہانہ بنا کر فوری رخصت لی، اور کار میں بیٹھتے ہی غصے سے کہا "تم کس غلطی کی معافی کا کہہ رہی تھی ؟" منیبه نے کہا "وقاص ! مجھ سے بہت بڑی بھول ہوگئی کہ میں نے نگہت کی بیٹی کے لیے وہ ایکشن نہیں لیا، جو اپنے بیٹے کے لیے لیا، بلکہ راشد بھی اتنا بڑا نہیں، ہمارا ہی بچہ ہے، اسے بھی بڑی تباہی سے روکا جاسکتا ہے." وقاص نے سپاٹ لہجے میں کہا "قرآن پر ہاتھ رکھ کر گواہی دو گی ؟" منیبه نے کہا "گاڑی واپس لے چلیں کیونکہ جو قرآن میں روز پڑھتی بھی نہیں، اس کو اپنی سچائی ثابت کرنے گواہ بنالوں، یہ خود غرضی میں نہیں کرسکتی. میری بات پر آپ سب اعتبار کریں گے کہ میں نے کیا دیکھا، کس خطرے کا اندازہ لگایا اور راشد بھی قبول لے گا، تو ٹھیک ہے. میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ ایک بچہ اپنی عزت رکھنے کی خاطر قرآن پر ہاتھ رکھ کر میری وجہ سے جھوٹ بولے، اور عمر بھر خمیازہ بھگتے."
--------------------

صابرہ کے محلے میں اس کا جو تعارف بن چکا تھا، نئے سیلون تک وہ شہرت نہیں پہنچی تھی نہ ہی اب وہ پہلے والی صابرہ تھی، جو ساری رات وی سی آر پر کیسٹیں بدل بدل کر رومانوی اور ایکشن انڈین موویز دیکھتی، اوردن چڑھے سوتی رہتی، یا ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں لیٹ کرکھانے بنانے کی کتابیں پڑھتی، اور دنیا بھر کے فلمی رسالوں کی عرق ریز تحقیق پر تدبر و تفکر کیا کرتی تھی،اب کبھی کبھی وہ اپنی سہلیوں کے لیے کچھ کھانے کی چیزیں بنا کر لے جانے لگی تھی ،کچن میں غلطیاں کرتی مگر انھیں سنبھال کر یا نادیہ کی مدد سے کچھ نئی چیز وجود میں آہی جاتی.
--------------------

وقاص نگہت کے گھر ماں سے ملنے کے بہانے پہنچ تو گیا تھا، مگر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے، تو اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ شاہد بھائی ابھی نفیس بھائی اور آپا موجود نہیں ہیں تو ذرا کھل کر بات کرتے ہیں … دیکھیں بڑی اچھی سکیمیں چل رہی ہیں کشادہ اپارٹمینٹس کی، آپ یہاں سے شفٹ ہونے کا کوئی پلان کیوں نہیں بنا لیتے ،شاہد نے بیگم کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا "ہماری بیگم اپنی بہن کا ساتھ چھوڑنا ہی نہیں چاہتی ہیں، بھائی یہ نہیں ہم بیاہ کر آگۓ ہیں ان کے گھر ، اور مذاق کی بات الگ ہے، نفیس دولہا بھائی بھی تو کیسے ملنسار شخصیت کے بندے ہیں، میرا اپنا جی نہیں کرتا، اور اب تو باجی کے بیٹے اتنے بڑے ہو گۓ ہیں کہ باہر کا کوئی کام ہو، گھر کا کوئی کام ہو ، حنا کو سنبھالنا ہو ".....وقاص نے چونک کر کہا "حنا کو کیوں سنبھالنا ہو ؟ نگہت ایک بچی تم سے نہیں سنبھالی جاتی ؟" نگہت نے جھانک کر دیکھا کہ باجی ابھی تک پہنچی کیوں نہیں. خیر وہ تنہا بھی ہلکی نہیں پڑتی تھی،بھائی پر برہم ہوتے ہوئے بولی "آپ کو ہم بہنوں کی محبت کیوں کھٹک رہی ہے ؟ اور صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ اپنے محل سے جب یہاں ہمارے ڈربے جیسے فلیٹوں میں آتے ہیں تو آپ کی شان گھٹ جاتی ہے …میرے بچے کیوں نہیں سنبھالیں گے اپنی بہن کو ! بھائی ہیں ماشاءاللہ سے اس کے." وقاص نے نگہت کی بات کو مکمل اگنور کر کے کہا "نگہت میری بہن! پلک جھپکتے میں بچے جوان ہو جاتے ہیں، تب محرم تو نہیں ہوں گے نا آپا کے بیٹے تمہاری بیٹی کے، ابھی سے ذرا فاصلہ رکھنا سکھادو تو …" نگہت پھٹ ہی پڑی کہ" میری چار سال کی معصوم فرشتہ بچی تم کو نظر آرہی ہے، اور اپنی پر کٹی بیوی کے بارے میں خیال نہیں آتا کہ نامحرم نندوئیوں کے آگے کیا لپسٹکیں لگا لگا کر آجاتی ہے" .اس بات پر وقاص نے انتہائی ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرسی کھسکائی، کھڑا ہوا اور جاکر والدین سے ان کے کمرے میں ملا، پھر تیزی سے منیبہ کو لے کر لفٹ کا انتظار کیے بغیر سیڑھیوں سے اترنے لگا تو نگہت کے شوہر بیگم کے بھدے رویے پر جزبز ہوتے ہوئے وقاص کے ساتھ ساتھ ہی اترنے لگے.
--------------
سیلون میں ہی کسی کوورکر کو صابرہ اپنے بھائی وسیم کے لیے پسند آگئی تھی جو امریکہ میں رہائش پذیر تھا،پڑھا لکھا بھی تھا،اچھا کما رہا تھا . کچھ سال پہلے کہیں ناکام عشق کر بیٹھا تھا تو اس غم میں شادی نہیں کی تھی. اس دوران والدین دنیا سے گزر گئے، اکلوتی بہن اپنے گھر کی ہوگئی تو اسے اپنے بچوں کے ساتھ خوش باش زندگی گزارتے دیکھ کر وسیم کو بھی عقل آچکی تھی، اور اب شادی پاکستان میں پلی بڑھی لڑکی سے کرنا چاہتا تھا تو صابرہ اس کوورکر کو اپنی بھاوج کے روپ میں نہایت مناسب نظر آرہی تھی.
نادیہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شوکت اتنی سرسری تحقیق کے بعد اتنی دور بہن کو بھیج دینے پر اس قدر جلدی حامی بھر لے گا، اور دولہا دلہن بھی راضی خوشی اس بندھن میں بندھنے راضی ہو جائیں گے، اس کا رب اس طرح اس کی دعائیں سن لے گا---کیا شوکت کو احساس ہوگیا ہے کہ اس کی بہن کے رویوں سے ان میاں بیوی کے رشتے میں کشیدگی بڑھتی جارہی تھی.
وسیم دو ماہ کی چھٹی لے آیا اور ایک سادہ سی تقریب میں بہت جلد یہ دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گۓ تاکہ نکاح کے بعد صابرہ کے کاغذات امریکہ جانے کے لیے داخل کروادیے جائیں اور رخصتی کو اسی وقت پر اٹھا رکھا.
شوکت اپنے بیوی بچوں کو بہتر مستقبل کی خاطر کینیڈا لے جانے کے لیے کچھ عرصے سے پر تول رہا تھا، اس نے خاموشی سے کاغذات جمع کروانے کے بارے میں سوچ رکھا تھا کہ جب تک باری آئے گی، صابرہ اپنے گھر کی ہو چکی ہوگی ، ایسے میں رشتہ امریکہ سے آگیا تو بہن سے دوری کا کانٹا بھی نکل گیا، اسے یہ سب اپنی دعاؤں اور پلاننگ کا جواب ہی لگا، لہٰذا اس نے نیک کام میں دیر نہیں کی .
--------------

نیچے اترتے ہی وقاص نے ایک خاموش کونے پر رکتے ہوئے بہنوئی کا ہاتھ تھام کر دھیمی آواز میں کہا "میں یہی چاہتا تھا کہ آپ سے تنہائی میں بات ہو سکے ،شاہد بھائی! میں اور منیبه بھی ماں اور باپ ہیں، حنا ہمیں اپنے بچوں کی طرح عزیز ہے، میری بات تحمل سے سنیے اور تھوڑے کو بہت جانیے. کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی ناک کے نیچے آپ کی بیٹی کے ساتھ کوئی شرمناک حادثہ ہو جاۓ، اور آپ تب بھی نہ جاگیں کیونکہ آپ کو حادثے کی اطلاع دے گا کون ؟" شاہد ہکا بکا کبھی وقاص کو دیکھتے کبھی زمین کو جو پیروں سے کھسکتی محسوس ہو رہی تھی. مبینه نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اچھے باپ اپنی اولاد کے صرف خرچے پورے کرنے والے نہیں ہوتے، انھیں تحفظ دینا بھی اس کا فرض ہوتا ہے، آپ بیوی کی محبت اور اس کے بہنوئی کی مروت کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں حنا کو."
"مم مگر ہوا کیا ہے؟" شاہد کی اس بات پر وقاص غصے میں ہتھیلی پر زور دار مکا مارتے ہوئے بولا " آپ یہ کیوں چاہ رہے ہیں کہ کچھ ہو جاۓ؟ اتنا آگاہ کر دینا کافی نہیں! اتنا خوف ہے نگہت کا آپ کے اوپر ؟ ایک باپ والی قوت فیصلہ کیوں نہیں آپ میں؟''
دونوں میاں بیوی کار کی طرف نکل ہی رہے تھے کہ آپا اور نفیس بھائی بھی بازار سے لوٹ آئے اور زبردستی انھیں واپس اوپر اپنے گھر لے آئے.نفیس نے آتے ہی بیگ میں سے فروٹس نکال کر مہمانوں کو پیش کی اور راشد کو آواز دی کہ چائے کا پانی رکھے، وقاص کے ذہن میں نہ جانے کیا آیا کہ کھڑا ہوتے ہوئے بولا
"راشد چلو نیچے سے سب کے لیے بن کباب لے کر آتے ہیں" ….اور پھرآرڈر دینے کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر کافی وقت راشد سے پوچھ تاچھ،تفتیش، اسے دھمکانے،جرم اگلوانے اور سمجھانے سے لے کر وعدے لینے تک کے پراسیس میں گزر گیا. وقاص دل سے اللہ تعالیٰ کا شکر کر رہا تھا کہ اسے اتنی سیانی بیوی ملی ہے جس نے کسی بڑے حادثے سے پہلے ہی اس کی بو کو پہچان لیا تھا.
واپسی کے سفر پر منیبه منتظر ہی رہی کہ اس کا شوہر کل رات کے تلخ رویے پر کسی لفظ یا انداز سے شرمندگی کا اظہار کرے گا.بہرحال اس کے لیے یہی بہت خوشی کی بات تھی کہ آج اس کے میاں نے بہت خوش اسلوبی سے ایک پیچیدہ معاملہ بغیر لڑائی بھڑائی کے نمٹالیا تھا، وہ یہ اعتراف کیے بغیر رہ نہ سکی لیکن!بدلے میں گنتی کے چند ستائشی بول اپنے لیے بھی اس سے سننا چاہتی تھی، مگر وقاص اپنی تعریف کے ساتھ ہی اپنے دادا کی تعریف میں رطب اللسان تھا کہ وہ ان پر گیا ہے، اس لیے اتنا معاملہ فہم ہے، مگر دادا اپنی قبر میں اس کے منہ سے ادا کیے گئے تعریفی الفاظ سن کر خوش نہیں ہو سکتے تھے، اور جو چند الفاظ سے خوش ہو سکتی تھی، اس کے کئی جذبات شوہر کی ان عادات کے باعث رفتہ رفتہ مردہ ہوتے چلے جارہے تھے.
(جاری ہے)