ہوم << ڈے ڈریمر - حسان وزیر

ڈے ڈریمر - حسان وزیر

حسان ماسٹر کے بعد میں نے پی ایچ ڈی کی اور باہر ملک میں پروفیسر لگ گیا، ساتھ میں ڈرامہ بھی کرتا تھا، میں ایک بےمثال ایکٹر تھا، کافی پیسے کماتا تھا، رفتہ رفتہ میں نے پراپرٹی خریدی اور اپنا کاروبار بھی شروع کر دیا، پھر میں لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرنے اور ان کا طرز زندگی بدلنے کی کوشش کرنے لگا. پھر میں سیاست میں آیا، صوبائی اسمبلی کا ممبر بنا اور سسٹم کو بدل کے رکھ دیا. میری شادی خوبصورت ترین لڑکی سے ہوئی تھی اور میرے 3 بچے تھے، ہمارا گھر ایک آئیڈیل گھر تھا، جس میں سوئمنگ پول سے لے کر گاف کلب تک سب کچھ تھا. رکیے! اس میں تو خدا نہیں ہے، چلیے پیچھے جاتے ہیں. میں جاب کے ساتھ قرآن بھی ترجمے کے ساتھ پڑھتا ہوں اور ریگولر حدیث بھی دیکھتا ہوں اور بڑے لوگوں کے بیانات بھی سنتا ہوں. رفتہ رفتہ میں خود ایک عالم بن گیا اور خود بیان دینے لگا، چار سو میرا ڈنکا بجنے لگا، لوگ مجھ سے دعا کرواتے تھے اور ذکر کی ہدایت لیتے تھے. میری پہنچ ہر جگہ تک تھی.
ماسٹر کے بعد میں نے سی ایس ایس کیا، اب ہر جگہ میری جان پہچان ہے، لوگ مجھے عزت دیتے ہیں، مجھ سے مدد کرنے کی درخواست کرتے ہیں اور میں ہر ایک کا خیال کرتا ہوں. مجھے پیسوں میں دلچسپی نہیں پر میری بیوی کو ہے، الحمد للہ اچھی خاصی کمائی ہوجاتی ہے، ہمارے تین گھر ہیں، ایک اسلام آباد میں، ایک بنوں اور ایک ناران میں، نہیں گائوں میں بھی ہونا چاہے، ہاں میرے 4 گھر ہیں. اور کاروبار بھی ہے. نہیں اس میں حرام کی کمائی بہت ہوگئی ، اللہ کو بھی جواب دینا ہے.
میری ایک چھوٹی سی نوکری ہے، شادی اس سے نہ ہو سکی جس کو میں پسند کرتا تھا کیوں کہ اس کے خواب بڑے تھے. اب ایک لڑکی کے لیے بندہ اپنی آخرت تو خراب نہیں کر سکتا، ہمارا چھوٹا ساگھر ہے، کافی سخت زندگی ہے مگر رات کو سکون کی نیند آتی ہے اور یقین ہے کہ میرا راستہ صحیح ہے، ایک دن دنیا اس کو تسلیم کرے گی. دنیا میری قدر کرے گی اور وہ لڑکی جس نے مجھے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑا تھا، وہ اب میرے پیچھے غم زدہ ہے کیوں کہ میں ایک باکمال شوہر اور باپ ہوں، جبکہ اس کا شوہر ایک شرابی ہے اور اسے بہت مارتا ہے، ساتھ میں دوسری عورتوں سے تعلقات بھی رکھتا ہے، اور ہاں رومانٹک بھی نہیں ہے. پھر خیال آیا کہ پیسے کمانا کوئی بری بات نہیں، چلو پہلے پیسے نہیں تھے، اس لیے لڑکی نے چھوڑ دیا مگر بعد میں تو اس کے شوہر سے بھی زیادہ پیسے کما لیے، اور میں ایک نہایت نیک اور شریف انسان بھی تھا.
اچانک احساس ہوا کہ بجلی آگئی ہے اور میں ایک چھوٹے سے کمرے میں پسینے میں شرابور پڑا ہوں. شکر ہے کہ بجلی آئی، انٹرنیٹ پر ضروری کام کرنا تھا، اب کچھ بننا ہے تو محنت تو ضروری ہے اس لیے پکا ارادہ کر لیا کہ بس اب محنت کرنی ہے. ضروری چیزیں سرچ کرنا شروع کر دی. پانچ منٹس بعد دیکھا کہ سائیڈ میں ایک پاپ اپ مینو میں ایک خوبصورت لڑکی بار بار دکھائی جا رہی ہے. میں نے لا شعوری طور پر اس پر کلک کیا تو وہ بالغوں کی ویب سائٹ تھی، ذہن میں بار بار خیال آ رہا تھا کہ نہ دیکھو، گناہ ہوتا ہے، وقت برباد ہوتا ہے مگر لاشعوری طور پر اور نہ چاہتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا.
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہر انسان خاص طور پر نوجوان لوگ دن میں اس طرح کے بہت سارے خواب دیکھتے ہیں، جو کہ اچھی بات ہے مگر 2002ء میں پی ایچ ڈی کی ایک ریسرچ جو ایلی سومر نے کی تھی، اس میں بتایا گیا کہ اگر یہ کیفیت بہت بڑھ جائے تو ایک بیماری بن جاتی ہے جسے maladaptive day dreaming کا نام دیا گیا جو کہ اس کا میڈیکل نام نہیں ہے کیونکہ اس کو بہت سارے لوگ بیماری تسلیم نہیں کرتے. یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ خوابوں کی دنیا میں جیتے ہیں اور خوابوں کی ہی دنیا میں ختم ہو جاتے ہیں. اس بیماری کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے Bin Stiller کی فلم The Secret Life of walter Mitty مددگار ثابت ہو سکتی ہے. ہم نے ایک واضح واضح لائحہ عمل بنانا ہوگا کہ ہم خواب کے ساتھ اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کریں. یہ معلوم کرنا ہوگا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمیں بار بار خواب دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں مگر حقیقت کی دنیا میں کچھ کرنے نہیں دیتے کیوں کہ اتنا وقت ہی نہیں بچتا. سائنسدان ان عوامل کو ٹریگر کا نام دیتے ہیں جو ہر بندے کے الگ ہو سکتے ہیں.
عام طور پر نوجوانوں کو فلم اور گانے یا پھر معاشرے کا بنایا ہوا سٹیٹس، بار بار خوابوں کی دنیا میں لے جاتا ہے. اور محسو س ہوتا ہے کہ اگر سلمان خان کی طرح جسم نہیں، بہت سارا پیسہ نہیں یا ایک خاص قسم کی نوکری نہیں تو زندگی ناکام گزر گئی اور اس صورت میں کوئی باپ اپنی بیٹی نہیں دے گا وغیرہ وغیرہ. یعنی ہم اپنے لیے ایک ایسی دنیا یا ایسے کمپلیکس تخلیق کر دیتے ہیں جن کا بعض اوقات کوئی وجود نہیں ہوتا، نتیجہ ڈپریشن اور مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے. یا پھر ان گانوں اور فلموں سے ہماری یادیں جڑی ہوتی ہیں اور یادوں میں کہیں چھپی ناکامی، جیسے ہی وہ فلم یا گانا چلے، ہم خوابوں کی دنیا میں چلے جاتے ہیں اور حقیقت میں بہت سارے کام کرنے سے رہ جاتے ہیں. اس لیے جیسے ہی ٹریگر معلوم ہو جائے تو اس کو نظر انداز کرنے میں ہی بھلائی ہے. شاید پھر ہم اس قابل ہو جائیں کہ نہ صرف خواب دیکھ سکیں بلکہ اسے پورا بھی کر سکیں.