ہوم << مدھیرا - حق نواز انصاری

مدھیرا - حق نواز انصاری

حق نواز انصاری اسی کی دہائی کو ہمارے بچپن کا زمانہ ہونےکا اعزاز حاصل ہے۔ ایسا دور جب ہم نصف درجن بچے جمعہ کے روز اپنے درجن بھر بزرگوں پر بھاری پڑ ا کرتے تھے۔ نانی اماں کی مو جودگی میں کسی کی مجال نہیں تھی کہ ہمیں کچھ کہہ سکتا۔ ان کی چارپائی ہماری واحد پناہ گاہ ہوا کرتی ۔ جہاں وہ ہمیں ہر کسی کے ظلم سے بچا لیا کرتیں۔ ہم ان کو پورے ہفتے کی رپورٹ پیش کرتے اور خود پرہونے والے مظالم کی داستان سنایا کرتے۔ کہ کیسے ہم کو روز رات کو جبراً دودھ پلایا جاتا ہے اور دوپہر کو اوپر جانے سے روکا جا تا ہے اور چاچا بہارو سے لال پری سپاری لیکر کھانے پر ڈانٹا جاتا ہے۔
گھر میں وی سی آر کے آ جانے سے رفتہ رفتہ یہ سلسلہ ختم ہی ہوگیا . کہانی کی جگہ فلم نے لے لی اور بچپن میں ہم نے خوب فلمیں دیکھیں. اور وہ بچپن آج تک ختم نہیں ہوا. سن 60 کے بعد سے پاکستان میں انڈین فلموں پر پابندی تھی. وی سی آر کے آ جانے سے فلموں کے شوقین حضرات نے ساری قضا فلمیں دیکھیں. نئی فلموں کو اس وقت بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا. پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلمیں آج کل کی فلموں کے مقابلے میں ہومیوپتھک فلمیں تھیں. ہمارے شہر کے وسط میں ایک سنیما ہوا کرتا تھا. رات کی خاموشی میں سنیما میں چلنے والے آخری شو کی آوازیں فضا میں گونجتی تھیں.
کبھی فن کے سلطان کی للکار تو کبھی ’چانجر دی پاواں جھنکار‘ سنائی دیا کرتی. 60 70 سال پہلے ایک گیت مشہور ہوا، جس کے بول شاید کچھ یوں تھے کے ’’ ماے نی میں نوں بڑا چا میریا دو گتاں کر دے‘‘ سنیما کے بالکل سامنے شہر کی معزز شخصیت جناب خان صاحب کی رہائش گاہ تھی اور ان کے گھر سنیما میں چلنے والی فلم کی آواز کچھ زیادہ ہی پہنچتی. جناب خان صاحب نے اس گیت کی بولوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سنیما مالکان کے سامنے بھرپور احتجاج کیا. ان کا کہنا تھا کہ یہ نہایت بیہودہ گیت ہے جس میں لڑکی اپنی ماں سے دو چوٹیاں کرنے کی فرمائش کر رہی ہے تا کہ وہ زیادہ خوبصورت نظر آئے.
ہم جو بھی قصہ سنتے دوسرے دن اسکول میں بریک کے وقت سب دوستو ں کو سنایا کرتے، سب نے ہی وہ قصّے پہلے سن رکھے ہوتے تھے. یعنی تمام والدین اپنے بچوں کو ان سچے کرداروں سے متعار ف کرایا کرتےتھے. لیکن جب ہم نے اپنے دوستوں کو فلموں کی کہانیاں سنانا شروع کیں تو سب بس ہمیں ہی سنتے، ہم کبھی کبھار دھیمی آوازمیں گانا بھی گایا کرتے کیوں کہ ہم اسمبلی میں دعا اور قومی ترانہ بھی پڑھا کرتے تھے. کبھی کبھار جمعرات کو چھٹی سے کچھ دیر پہلے استاد محترم کی موجودگی میں بزم ادب آ راستہ کی جاتی. سارے بچے اس بزم میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا کرتے.
شیشی بھری گلاب کی پتھر پہ توڑ دوں
خط کا جواب نہ ملے تو خط لکھنا ہی چھوڑ دوں
یا
لطیفہ کسے کہتے ہیں
لطیف کی بیو ی کو
جیسے ادبی آئٹم پیش کیے جاتے. ایسی سرگرمیاں بہت کم ہوا کرتیں اس لیے جو کچھ اور جیسا بھی پیش کیا جاتا اس کی خوب پذیرائی ہوتی. ساری کلاس دیوانہ وار تالیاں پیٹا کرتی .
ایسی ہی ایک چلتی بزم میں ڈیٹول کے منہ والے ہمارے ایک دوست نما دشمن نے استاد جی کو بتا دیا کہ ہم بریک کے وقت ٹیوب ویل کے ساتھ والے پلاٹ میں بیٹھ کر دوستوں کو گانا سنایا کرتے ہیں. ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہم اس ڈیٹول کے منہ والے کی گردن مروڑ دیں کیوں کہ کچھ دن پہلے ہی ہمارے بستے جسے اسکول بیگ کہا جاتا ہے، میں سے اس زمانے کی قومی بھابھی رینا رائے کا ایک روپیہ والا تصویری کارڈ نکل آیا تھا، جسے دیکھ کر ہمارے پیٹ سے ذومعنی آوازیں برآمد ہوا کرتی تھیں. فوٹو برآمد ہونے پر ہم بال بال سزا سے بچ چکے تھے. استاد جی نے ہمیں کلاس کے سامنے گانا گانے کا حکم دیا. ہم ڈرتے کانپتے استاد جی کے ساتھ جا کے کھڑے ہو گئے. ان کی آواز کسی جابر بادشاہ کے انداز میں کلاس میں گونج اٹھی. گاؤ .... ہم نے نہایت ادب سے سینے پہ ہاتھ باندھے آنکھیں بند کیں اور بلند میں کس کس کے کھینچ کھینچ کر گانا شروع کر دیا .
’’دھوپ میں نکلا نہ کرو روپ کی رانی گورا رنگ کالا نہ پڑ جائے‘‘
’’مست مست آنکھوں سے چھلکاؤ نہ مدھیرا مدھو شالا میں تالا نہ پر جائے‘‘
دوسرے بول پہ استاد جی نے بےاختیار واہ کہا تو ہماری کچھ ہمت بندھی اور ہم نے اپنا ایک ہاتھ فضا میں بلند کر کے گانا شروع کر دیا. آر کسٹرا تھا نہیں تو گانے میں مناسب جگہوں پر ہم نے تی ری ری ری پڑنگ اور پوئیں جیسی آوازیں نکال کے ماؤتھ میوزک دیا. ہمارے دوست منہ کھولے آنکھیں پھاڑ کے ہمیں دیکھ رہے تھے. ہمارا یہ ٹیلنٹ ان کےلیے نیا تھا. گانا تھنڈر کلیپ پر ختم ہوا جس میں استاد جی کی بھی دو نابالغ تالیاں شامل تھیں. ہم ہواؤں میں اڑتے اپنے ڈیسک پہ پہنچے. دوستوں نے پیٹھ تھپک کر ہمیں شاباش دی. استاد جی نے سوال جواب کرنا شروع کر دیے. کس فلم کا گانا ہے وغیرہ وغیرہ. پھر پوچھتے مدھیرا کا کیا مطلب ہے؟ ہم نے ترت جواب دیا، شراب، کیونکہ ہم بزرگوں سے اس کا مطلب پوچھ چکے تھے. جواب سن کر ایک دم استاد جی کے چہرے کے تاثرات بدلے جو ہمارے سوا پوری کلاس نے دیکھے. انہوں نے ہمیں اپنے حضور میں دوبارہ طلب فرمایا. ہم کامیابی کے نشے میں سرشار ان کے سامنے پہنچ گئے. ہمیں کیا پتہ تھا ان کے اندر کا روحانی باپ جاگ اٹھا تھا. انہوں نے ہمیں بالوں سے پکڑ کر تیکھے لہجے میں دوبارہ سوال پوچھا. اب ہماری آواز کہاں نکلنی تھی. ہمیں اپنا انجام صاف نظر آرہا تھا. استاد جی ہمیں بالوں سے پکڑ کر آگے پیچھے آگے پیچھے دھکیل رہے تھے. ہمارا تو سینٹر ہی آؤٹ ہو چکا تھا. فن کی دنیا میں کسی فن کار کا عروج اتنی جلدی زوال میں نہیں بدلا ہوگا. استاد جی بار بار ایک ہی بات کا مطلب پوچھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ جگہ کا تعین کیے بغیر ایک ردھم میں بطور داد زوردار جھانپڑ رسید کر رہے تھے. ویسے تو منہ پھاڑ کےاونچے سروں میں رونے میں ہم اپنی مثال آپ تھے لیکن اس وقت ہمارا منہ تو کھلا تھا لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی. استاد جی کی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے مولابخش سے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے. بچے کو جب چوٹ لگے یا سزا ملے تو وہ متاثرہ جگہ کو دیکھ کر رویا کرتا ہے لیکن اس وقت ہمارا پیچھے گردن موڑنا ناممکن تھا .
’’استاد جی ول کینا کرے ساں‘‘ کی مسلسل گردان سے ہماری جان چھوٹی جو یقیناً لال ہو چکی تھی. ہم کھا جانے والی نظروں سے اس ڈیٹول کے منہ والے کو دیکھتے ہوئے اپنے ڈیسک کی طرف بڑھے ہی تھے کہ وہ ظالم کا بچہ پھر کھڑا ہو کے چیخنے لگا.
’’استاد جی اے میں کوں آ ھدے، چھٹی دے بعد تیرے کول پچھ گھنساں‘‘
استاد جی نے ہمیں واپس گھسیٹ لیا. ہم بےاختیار قسمیں کھانے لگے تو استاد جی کو یقین آیا. اس وقت تو ہم نے گانے سے توبہ کر لی جو کافی وقت قائم رہی. اب تو یہ حال ہے کہ توبہ کی بھی توبہ ہے کہ توبہ نہ کریں گے. اس شام غریباں کے بعد جب ہم گھر پہنچے تو والد صاحب کو نامعلوم ذرائع سے پہلے ہی سب کچھ پتہ چل چکا تھا. آج تک ہم ان ذرائع کی تلاش میں ہیں تاکہ شدید ترین تشدد کے بعد ان کو قتل کر سکیں کیونکہ ان کی وجہ سے کافی بار والد صاحب کے ہاتھوں ہماری ٹھیک ٹھاک سروس ہوتی رہی تھی.
ہفتہ کے روز والد صاحب استاد جی سے ملنے اسکول تشر یف لائے. ہم پہ فلم دیکھنے پر پابندی لگ گئی. پھر تادیر دونوں اس گیت کے بولوں اور فلموں پر تبادلہ خیال کرتے رہے. عبدالحمید عدم اور ریاض خیر آبادی نامی اشخاص کے ذکر پر دونوں بہت جذباتی ہو گئے. اس وقت تو ہمارے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ دونوں کون ہیں البتہ بعد میں پتہ چل گیا.
اس دلخراش واقعہ کے کچھ روز بعد ہی ہم نے اس ڈیٹول کے منہ والے سے بدلہ لے لیا. اور وہ داستان ناقابل بیان ہے.

Comments

Click here to post a comment