ہوم << دنیا بھرکاغم سمیٹنے والوں کے نام - محمدعماراحمد

دنیا بھرکاغم سمیٹنے والوں کے نام - محمدعماراحمد

Hands Holding a Small Globe --- Image by © Royalty-Free/Corbis

عمار احمد امیرمینائی کایہ شعر
خنجرچلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کادرد ہمارے جگرمیں ہے
پاکستانیوں کے حالات پرصادق آتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے وا لے واقعات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں اور دل کھول کر ان پر بحث مباحثے کرتے ہیں۔ تحریک خلافت سے لے کر تُرکی کے موجودہ حالات تک ہم اپنے حالات سے زیادہ دوسروں کے حالات کی فکر کرتے ہیں۔ تحریک خلافت کے دوران مرحوم باچاخان نے مسلمانوں کا جوش وخروش دیکھا تو کہا تھا ’’برِصغیرکے مسلمان جتنی دلچسپی دوسرے خطوں کے معاملات میں لیتے ہیں، اگر اتنی دلچسپی اپنے معاملات میں لیتے توان کی حالتِ زار یہ نہ ہوتی جو دنیا کے سامنے آج ہے۔‘‘ بطور قوم ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے ملک کی نسبت دوسرے ممالک سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ شام، یمن، بحرین، عراق، افغانستان، فلسطین اور برما میں کچھ ہوتا ہے تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہم اسی انتظار میں ہوتے ہیں کہ کہیں کوئی واقعہ رونما ہو اور ہم سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اس واقعے کو زیرِبحث لائیں۔ بحث مباحثے کو چھوڑیں ہم تو دوسرے ملکوں کی عقیدت میں اپنے ملک کو خون آلود کرنے سے بھی گریزنہیں کرتے۔
حالیہ دنوں میں کشمیر میں مظالم اور تُرکی میں بغاوت ایک ہی وقت میں برپا ہوئی۔ کشمیرمیں نہتے مسلمانوں پر عرصہ دراز سے مظالم کیے جا رہے ہیں اور اب پھر قابض فوج مظلوموں کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہی ہے۔ 50 سے زائد لوگ شہید، کئی زخمی اورگرفتاریاں و کرفیو الگ۔ ہم ہیں کہ تُرکی کے حالات کو ہی موضوعِ بحث بنائے ہوئے ہیں۔ بغاوت کی ناکامی کی خوشی میں یہ بھول گئے کہ ہمارے یہاں کشمیر میں قیامت برپا ہے۔ تُرکی میں بغاوت ناکام ہوئی، یہ ایک خوشی کی خبر ہے مگر کیا ہمیں اس خوشی میں اپنے کشمیریوں کا رِستا لہو بھلا دینا چاہیے جبکہ اس لہوکے بہنے کی وجہ ہی ہم ہوں۔ کشمیری عوام یہ مظالم صرف اسی لیے سہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کا پرچم لہراتے ہیں۔ کیا ہمیں زیب دیتا ہے کہ ہم کڑے وقت میں ان کے دکھ بانٹنے کے بجائے ایک دوسرے ملک کے حالات پربحث کرنے لگیں۔؟
شام، برما اور فلسطین کے مسلمانوں سے ہمدردی اچھی بات ہے اور ہر مظلوم سے ہمدردی ہونی بھی چاہیے۔ امت مسلمہ کے لیے ہمارا درد قابل تحسین ہے اور یہ بھی کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی خوشیوں سے اتنے خوش ہوتے ہیں کہ اپنے غم بھول جاتے ہیں۔ مسلم امہ جن حالات سے گزر رہی ہے وہ یقیناََالم ناک ہیں اور ہمیں بطورمسلمان ان حالات کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے۔ نبی مکرم ﷺ نے امت کو جسدِواحد سے تشبیہ دی تو اس کاسبب یہی ہے کہ ہم اپنے دکھ، درد اور خوشیاں آپس میں بانٹیں۔ مگرذراتوقف کیجیے کہ کیا جس طرح ہم امت کے غم میں ہلکان ہو رہے ہیں، اسی طرح امت بھی ہمارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتی ہے کہ نہیں۔؟ ہم اپنے شہروں، گلیوں میں کبھی تحفظ حرمین اور کبھی آزادی قدس کے لیے نکلتے ہیں تو کبھی شام و برما کے مظلوموں کے لیے۔ اس طرح کبھی کسی دوسرے ملک میں لوگ ہم سے ہمدردی کے لیے نکلے ہیں۔؟ آرمی پبلک اسکول کے اندوہناک واقعے کے بعد کسی مسلم ملک میں ہم سے ہمدردی کے لیے جلوس نکالے گئے۔؟ تمام ممالک کے حکمرانوں نے ضرور ہم سے تعزیت و افسوس کا اظہار کیا مگر کہیں پر بھی اس سانحے کے خلاف اس طرح شورشرابہ کیاگیا جس طرح ہم کرتے ہیں۔؟ زیادہ دور کی بات نہیں کرتے، کشمیر میں حالیہ مظالم پر کسی اسلامی ملک نے ہمارے دشمن کے خلاف ہمارا ساتھ دیا ہے۔؟ کشمیر میں بھارتی مظالم پر تہران یا ریاض میں کہیں عوامی مظاہرے کیے گئے کہ یہ ظلم بندکرایاجائے۔؟ کہیں ایسا نہیں ہوا کیوں کہ وہ اپنے ملک کے فادار ہیں اور انہیں اپنے ملک کی سالمیت اور مفاد عزیز ہے۔ وہ ہماری وجہ سے بھارت سے تعلقات خراب نہیں کرسکتے کہ ریاستیں اپنی پالیسیاں مذہب نہیں بلکہ اپنے مفادکے تحت ہی تشکیل دیتی ہیں، ہمیں بھی ایسا ہی کرناچاہیے۔
رہی بات کہ شام، فلسطین اور برماکے مسلمان مظلوم ہیں اور ان سے متعلق ہم سے سوال ہوگا یا حرمین شریفین و بیت المقدس کا تحفظ ہم پرفرض ہے۔ ہمارے بس میں شام، فلسطین اور برما کے مسلمانوں کی مدد کرنا نہیں، نہ ہی ہم حرمین شریفین اور بیت المقدس کا تحفظ کر سکتے ہیں کیوں کہ ممالک کی اپنی سرحدیں ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں مداخلت کرناجرم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے بازپرس ہوگی چنانچہ حکمران اپنی رعایا کے ذمہ دارہیں اور ان سے ان کی رعایاکے حوالے سے بازپرس ہوگی۔‘‘ اس حدیث کی روسے مقدس مقامات اور ہر ملک کے عوام کا تحفظ وہاں کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے، وہ حکمران جسے چاہیں گے اس مشن کے لیے منتخب کریں گے۔ اگر کوئی وہاں کے حکمرانوں کی مرضی ومنشا کے بغیر محض غیرت ایمانی کے جذبے کے تحت یہ مقدس کام کرناچاہے گا تو الٹا یہ ممالک مل کر اس کے خلاف کارروائی کریں گے.
اپنے ملک کی فکر کیجیے۔ افسوس کہ ہم تہران و ریاض کے استحکام کے لیے لاہور اور کراچی کو غیرمستحکم کر رہے ہیں۔ ہماری اولین ذمہ داری ہمارے ملک کے لوگ ہیں، یہاں بہت سے مظلوم ہیں اور محکوم بھی۔ یہاں غربت سے تنگ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اور بیٹیاں غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہیں تو ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہاں مظلوم بیٹیاں زندہ جلادی جائیں اور ہم باہر کا ماتم کر رہے ہوں تو یہ انصاف کی بات نہیں۔ کیاگھنائونا مذاق ہے کہ یہاں خود اہلِ منبر نفرت انگیز زبان سے مسجد کے تقدس کو پامال کریں یا پھر شدت پسند مساجد کوخون آلود کریں اور ہم آزادی قدس کی بات کریں۔ شام و عراق کی مظلوم بہنوں کے لیے آواز اٹھائیں مگر عافیہ صدیقی کو بھول جائیں یا یہاں کی مظلوم بہنوں کو ان کے حق سے محروم رکھیں۔ ہمیں خود کو امتِ مسلمہ کی تعمیر و ترقی کی کوشش ضرورکرنی چاہیے مگراس سے پہلے لازم ہے کہ ہم اس کام کی انجام دہی کے قابل بھی ہوں۔ دوسروں کے کام آنے میں راحت واطمینان تب ہی آتا ہے جب انسان خود مستحکم ہو۔ مسلم امہ کے لیے درد رکھنے والی اپنی قوم کے نام محترم سعودعثمانی صاحب کایہ شعرکرتا ہوں
خود اپنے آپ سے کٹ کر حیات کے کیا معنی
جہاں کا غم وہ سمیٹے جو اپنے گھر کا بھی ہو

Comments

Click here to post a comment