ہوم << جہاں کسی کو بھی کچھ بھی حسب آرزو نہ ملا - نسرین غوری

جہاں کسی کو بھی کچھ بھی حسب آرزو نہ ملا - نسرین غوری

گاڑی پارک کر کے واپس آئے تو جب تک بارات کی بس بھی آچکی تھی، اور باقی باراتی بھی۔ کچھ باراتی سیٹوں پر قبضہ بھی کر چکےتھے، ہم نے بھی ایک کھڑکی والی سیٹ پکڑ لی۔ سہیلی نے دیکھا دیکھی ایک اور کھڑکی پر قبضہ جما لیا، ان کو نظریں پھیرتے دیکھ کر ہم نے بھی انہیں’’ہنہ‘‘ کر کے فوراً اپنے دائیں پڑوسی سے ڈاک خانہ ملا لیا۔ ہماری ان کی پہلے سے دعا سلام تو تھی، لیکن یقینی گمان ہے کہ ہم دونوں ہی غالباً ایک دوسرے کے ظاہری حلیے اور سابقہ تعارف کے باعث ایک دوسرے سے اور ایک دوسرے کے بارے میں بالترتیب خاصے مرعوب و مشکوک تھے، جس کو درست ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ہم سے بارہا دریافت کیا ہوگا کہ ’’آر یو کمفرٹیبل؟‘‘۔
جب ہمارا ڈاک خانہ مل گیا بس دونوں طرف سے ٹرین اسٹارٹ۔ پہلے اپنی اپنی سابقہ مہمات کی شوئیاں ماری گئیں، پھر آنے والے پروگرامز ڈسکس ہوئے، جن میں سے کچھ مشترکہ مہمات میں تبدیل ہوگئے یا کیے گئے، کچھ نئے پلان بنائے گئے جن میں ایک غیرموجود مشترکہ دوست کو بھی حسب ذائقہ ڈال لیا، باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ یہ پڑوسی تو بہت ہی غریب قسم کے ہیں، اتنے غریب کہ ان کے پاس موٹر سائیکل تک نہیں ہے، اور گو کہ یہ بھی ہر دوسرے ٹریکر کی طرح ’’کے ٹو آئے‘‘ ہوئے ہیں، پر انہوں نے اب تک چرنا آئی لینڈنہیں کیا ہے۔ یعنی کہ چرنا، وہی چرنا جو کراچی کے ہر ایرے غیرے نے کیا ہوا ہے، دل ہی دل میں اپنا شانہ تھپتھپایا کہ ہم بھی کسی میدان میں ان سے آگے ہیں۔ کے ٹو کا کیا ہے، فیس بک پر ہر بندے کی فرینڈ لسٹ میں ہر دس میں سے آٹھ لوگ کے ٹو بیس کیمپ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم بھی آج نہیں تو کل ہو آئیں گے۔ ہم دونوں اپنی باتوں میں ایسے گم ہوئے کہ جب ہوش میں آئے توتقریباً ساری بس خراٹے لے رہی تھی، بس ہم دو ہی تھے جو برساتی مینڈکوں کی طرح مسلسل ٹرائے جارہے تھے اور شاید دوسروں کی نیند میں خلل انداز بھی ہو رہے تھے۔
ہمارے لیے کسی بھی ٹرپ میں منزل مقصود کی اہمیت محض 10 فیصد ہوتی ہے۔ باقی 90 فیصد اہمیت راستے کی خوبصورتی کی ہوتی ہے، ہمیں ہمیشہ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ راستے کونظرانداز کر کے خراٹے کیسے بھر رہے ہوتے ہیں۔ جب تک آنکھوں میں دم اور منظر میں روشنی رہے، ہماری تو آنکھیں بس کے اندر آنے پر تیار ہی نہیں ہوتیں، لہذا جب تک آنکھوں میں دم اور منظر میں روشنی رہی باتوں کے ساتھ ساتھ ہماری آنکھیں بھی مسلسل مصروف کار رہیں۔ اور جب آنکھوں اور منظر میں دیکھنے کو کچھ نہ بچا تو غالب گمان یہ ہے کہ ہم نے ایک لمبا والا غوطہ لگایا۔
اور جب آنکھ کھلی تو ہائےہائے ، نہ پوچھو ان کانوں نے کیا سنا۔ شاید آنکھ کھلی ہی بذریعہ کان تھی ۔ مہدی حسن کی دھیمی آواز میں سریلے، کانوں میں رس گھول دینے والے گانے،
جو ڈرائیور نے اپنے حسب ذوق و حسب رینج آواز میں چلا رکھے تھے۔
کیا پوچھتے ہو، کیا تم سے کہیں، میں کس لیے پیتا ہوں
شاید کہ کبھی مل جاو کہیں، میں اس لیے پیتا ہوں
اوہ ، ،، سوری ،،،
"جیتا ہوں" ہے شاید گانے میں
ہم کیونکہ ڈرائیور کی رینج یعنی’’پائلٹ سیٹ‘‘ کے آس پاس پائے جاتے تھے تو آواز کہیں نہ کہیں سے لیک ہوکر ہم تک بھی پہنچ رہی تھی۔ شکر ہے کہ موسیقی کے معاملے میں اس بار ہم اس منحوس قسم کی موسیقی سے بچ گئے اور اس میں زیادہ کریڈٹ بس کے پائلٹ کو جاتا ہے۔ لیکن آواز اتنی دھیمی تھی کہ ہم تک لہروں کی صورت پہنچتی تھی کبھی کم کبھی زیادہ ، اس سے پہلے کہ ہمارا پیمانہ صبر لبریز ہو کر چھلک پڑتا، ہمارے ہم سفر نے ہماری بے قراری کو دیکھتے ہوئے ڈرائیور سے والیوم بڑھانے کی درخواست کردی۔
راستے بھر حضرات تقاضا ہائے قدرت سے مجبور ہوکر جگہ جگہ ڈرائیور سے بس روکنے کی درخواست کرتے رہے۔ اس ضمن میں مشاہدے میں یہ آیا کہ شرم و حیا تو ایک طرف زیادہ تر حضرات کو گھر سے بنیادی اخلاقیات بھی نہیں سکھائی گئیں۔ اللہ کے بندو کم از کم اتنی تو حیا کرو کہ بس کی رینج سے دور جا بیٹھو، بس کے پیچھے بھی روشنی ہوتی ہے، جو جہاں اترا وہیں بیٹھ گیا، بلکہ کھڑا ہوگیا، ہم خود سے کھڑکی پر پردہ سرکا لیں تو سرکالیں، ان کے ہاں نہ کوئی حیا ہوتی ہے نہ شرم ہوتی ہے۔ ہم نے ایک بار اپنی ایک مصری دوست کو رکھ کے سنائیں تھیں، مصری نوجوانوں کو بےشرمی سے کھڑے ہوکر فارغ ہوتے دیکھ کر، شاید اسی لیے آج اللہ میاں نے ہماری ہی بات ہمارے منہ پر دے ماری تھی۔ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے بارے میں ایک حدیث میں بھی منع فرمایا گیا ہے، کیونکہ چھینٹے لگنے سے بندہ خود بھی ناپاک ہوجاتاہے۔ لیکن فی زمانہ شاید حلال حرام، پاک و ناپاک کا تصور رکھنے والے ہم جیسے دو چار دقیانوسی لوگ ہی رہ گئے ہیں۔
دوسرا اندازہ جو ہمیں ہوا کہ کیونکہ ایسے پروگرامز کے منتظمین حضرات ہوتے ہیں تو وہ خود ہی فرض کرلیتے ہیں کہ خواتین تو گھر سے پیمپر باندھ کر چلی ہوں گی۔ بندگان ِ خدا، خوف خدا کرو ، خواتین کیا انسان نہیں ہیں۔ اللہ اللہ کرکے ایک ہوٹل پر گاڑی رکی جہاں خواتین کے لیے کچھ مناسب ’’صورت حال‘‘ تھی جس میں نامناسب قسم کے حشرات الارض کی فراوانی تھی۔ ہم اللہ کا شکر ہے کہ بھانت بھانت کی ’’صورت حالات‘‘ سے گزرے ہوئے ہیں بشمول جھاڑیاں، تو جہاں چہار اطراف دیوار بھی مہیا ہو اس پر شکر ادا کرتے ہیں، یہاں بھی شکر ادا کر کے ہلکے پھلکے ہوگئے، البتہ ایک دو خواتین نے ’’دل میں کرنے‘‘ کو ترجیح دی، بڑا دل گردہ تھا ان خواتین کا خیر سے۔
ہمارے ہم سفر رات بھر اپنے ڈی ایس ایل آر کو ضدی پسرِ شیر خوار کی مانند گود میں لیے بیٹھے رہے کیوں کہ شیر خوار کواس کے اصلی پنگھوڑے کے بجائے بس ایک کپڑے میں لپیٹ کر لے آئے تھے۔ صبح کی آمد آمد کے آثار نظر آتے تھے جب انکی کی ’’فوٹوگرافری‘‘ کی حس بالآخر بے تاب ہوکر ابل پڑی، کیونکہ آفتاب تازہ پیدا ہوا ہی چاہتا تھا اور وہ نومولود کی پہلی جھلک کو ڈجٹلائز کرنے کو بے قرار تھے، بس کے باہر اندھیرے میں سے پہاڑیاں اور سڑک نمودار ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ آخر ایک فوٹوگرافر بلوچستان کے مناظر دیکھ کر کب تک خود پر اور کیمرے پر قابو رکھ سکتا ہے۔
سپیدہ سحر نمودار ہوتے ہوئے
فوٹوگرافری میں ایک پریشانی یہ تھی کہ سورج جس جانب سے نمودار ہورہا تھا ہم اس کی غربی سمت بیٹھے تھے، لیکن جس نے کی شرم اس کے کیمرے کے پھوٹے کرم، اور جو بےشرم اور بے دھڑک نہ ہو وہ کچھ اور ہو تو ہو کم از کم فوٹوگرافر نہیں ہوسکتا۔ حسب توفیق شرقی سمت کے مسافروں کا صبر آزمایا گیا۔ ویسے ہماری قوم ہے بڑی سہولت کار۔ رفتہ رفتہ سارے فوٹوگرافروں کو خبر ہوگئی کہ نومولود کی منہ دکھائی ہوگئی ہے۔ اتنے سارے اور بھاری بھرکم ڈی ایس ایل آر ز کے درمیان ہمیں اپنا منا سا سائبر شاٹ نکالتے ذرا گبھراہٹ سی ہو رہی تھی لیکن مناظر ایسے تھے کہ نہ نکالتے تو پچھتاتے، تو ہم نے پچھتانے پر گھبرانے کو ترجیح دی اور اپنا کیمرہ باہر نکال ہی لیا۔
تقریباً 9 بجے کے لگ بھگ ’’بارات‘‘ خضدار کے الامارات ہوٹل پر لنگر انداز ہوئی، جہاں ناشتے کے انتظامات کیے گئے تھے، پہلے حسب روایت مرد و زن کو علیحدہ علیحدہ ڈبوں میں پیک کرنے کی کوشش کی گئی جو کچھ ہی دیر میں ناکام ہوگئی۔ اور سب مل بانٹ کر ناشتے سے لطف اندوز ہوئے۔ ہوٹل پر بارات کیا اتری ایک ہل چل مچ گئی، گو کہ ہوٹل ٹھیک ٹھاک ہوٹل تھا لیکن شاید ابھی تک کسی بارات کی میزبانی کا شرف اسے حاصل نہیں ہوسکا تھا۔ ایک ہی بیرا تھا جو مختلف چوکڑیوں کے بھانت بھانت کے آرڈر سن سن کر بوکھلایا ہوا تھا۔ کسی کو پراٹھے لا دیے تو سالن آ ہی نہیں پا رہا، کہیں سالن آگیا ہے تو دال کی فرمائش ابھی تک پوری نہیں ہوئی، کہیں سے آملیٹ کی فرمائش ہوئی تو فرمایا کہ آملیٹ نہیں ہے، پوچھا انڈہ ہے، ہاں جی انڈہ ہے، آملیٹ نہیں ہے، شہری لوگوں کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے، انڈہ ہے لیکن آملیٹ نہیں، بیرے کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ انڈہ پوچھتے ہیں، منگاتے نہیں ہیں، منگاتے ہیں آملیٹ جو ہے ہی نہیں مینو میں۔ کچھ ایسا حال تھا کہ ’’وہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا‘‘ کے مصداق ’’کسی کو دال نہ ملی، کسی کو آملیٹ نہ ملا‘‘ جس کو جو ملا اسی سے پیٹ پوجا کر لی گئی۔ البتہ تندوری پراٹھے اور چائے کمال کے تھے۔ ناشتے کے پیسے چائے سے پراٹھا کھا کر وصول ہوگئے، قسمے۔
الامارات ہوٹل خضدار
ناشتے کے بعد ہدایت ملی کہ اپنا سامان ایک جیپ میں رکھ کر سیٹ پکی کرلیں بلکہ جیپ ہی پکی کرلیں کہ یہ آپ کی جیپ ہے۔ ہم نے اپنا سامان ایک جیپ کے پیچھے ڈالا اور خود بھی چڑھ گئے، بتایا گیا کہ نہیں آپ نے جیپ کے اندر بیٹھنا ہے، باہر نہیں، یعنی آپ کا دم پخت تیار ہونا ہے، سجی نہیں۔ اندر ہمیں نہ سجی ملی نہ کبھی، ہمارے ساتھیوں نے ہمارا سینڈوچ بنا ڈالا۔ جیپ میں فٹ ہوئے، ہمارے حصے میں یعنی ہماری جیپ کے حصے میں ایک عدد مقامی گائیڈ آئے جو بعد میں تفصیلی تعارف کے دوران پتا لگا کہ علاقے کے سابق ناظم ہیں۔ حسب موسم پانی اور کولڈ ڈرنک کی ٹھنڈی ٹھار لیٹر بوتلیں اور بسکٹس جیپ میں ذخیرہ کر لیے گئے، کیونکہ مزید سفر کئی گھنٹوں پر محیط ہونا تھا۔
لگ بھگ بارہ بجے دوپہر کے قریب جیپوں کو’’کک‘‘ مار دی گئی، اس دوران کسی غلط فہمی کے باعث ہم تینوں کا سامان ہماری جیپ سے کسی اور جیپ میں منتقل کردیا گیا اور یوں ہم بے سروساماں ویرانے کو چل پڑے۔ اور چل کیا پڑے ایک مستقل چلنے والے مسالہ مکسر میں ڈال دیے گئے جوکسی کل بیٹھنے نہ دیتا تھا۔ شاید ملک ریاض کے کسی پراجیکٹ سے لیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
سفر نامے کا حصہ اول یہاں پڑھیے۔
سفرنامے کا تیسرا حصہ یہاں پڑھیے

Comments

Click here to post a comment