شام کا وقت تھا۔ دن بھر کی گرمی کی شدت اب کم ہو رہی تھی۔ ہوا نے بھی اپنا موڈ بدل لیا تھا۔ راستے میں طویل سڑک کے دونوں طرف مختلف ریستوران اور فوڈ شاپس تھیں۔ اونچے اونچے بلند و بالا ہوٹلز تھے۔ یہ فوڈ اسٹریٹ تھی۔ مئی کا مہینہ اور مکے کی صحرائی زمین۔ سڑک ابھی تک تپ رہی تھی۔
یہی وہ مقدس شہر ہے جہاں دوجہاں کے سرکار ﷺ رہا کرتے تھے۔ اس کی سوچیں اسے ماضی کا سفر کروا رہی تھیں۔ یہی آپ ﷺ کی جائے پیدائش ہے۔ یہاں آپ ﷺ کا گھر ہے، یہیں کھیل کر بڑے ہوئے، یہیں دعوت کا آغاز کیا۔ کہاں کہاں سے جاتے ہوں گے، کہاں کہاں سے گزرتے ہوں گے۔ پتہ نہیں کس راستے سے حرم میں داخل ہوتے ہوں گے۔ شاید یہیں سے جاتے ہوں، اس نے احتراما پائوں سے چپل اتار دی۔ اف اتنی گرم سڑک، زمین کو چھوتے ہی تیز تپش کا احساس جسم میں دوڑ گیا۔
یااللہ ! پیارے نبی ﷺ اتنی گرمی میں کیسے جاتے ہوں گے؟ جب تو اتنے اچھے جوتے اور چپلیں بھی نہیں ہوتے ہوں گے۔
بس یہاں سے حرم کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ ایک سوچ کے عالم میں تھی جب اس کے بھائی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ سامنے ہی بڑا سا خوبصورت سا باب فہد تھا۔ دور تک حرم کا سفید فرش پھیلا ہوا تھا۔ گرم سڑک سے آکر جیسے ہی حرم کے فرش پر پائوں رکھے۔ ایک ٹھنڈک کا احساس پورے جسم کو سرشار کر گیا۔ حرم کا فرش خاص میٹریل سے بنایا گیا ہے جو شدید گرمی میں بھی ٹھنڈا رہتا ہے۔ حرم کی تعمیر میں خوبصورتی، پاکیزگی اور تقدس کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ طرز تعمیر، ڈیزائن اور رنگوں کے انتخاب میں حد درجہ نفاست اور دلکشی پائی جاتی ہے، حرم کے اونچے ، لمبے چوڑے دروازے، سیاہ جالیاں اور بلند وبالا مینار اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر تے ہیں۔
نگاہیں جھکائے، دل کو سجدہ ریز کیے اس نے حرم میں قدم رکھا۔ پورا جسم ہی سر تا پا عقیدت میں ڈوبا ہوا تھا۔ اپنے گناہوں کا احساس اور اس دوجہاں کے دربار میں حاضری کا تصور قدموں کو اورزیادہ بھاری اور دل کو بہت بوجھل کر رہا تھا ۔کہاں وہ اور کہاں یہ مقام۔
اسے آج بھی یاد تھا کہ کیسے پلک جھپکتے سب کام ہوا تھا۔ بیٹھے بٹھائے ایک دن سب پاسپورٹ بنانے جا پہنچے۔ لوگوں نے بہت ڈرایا تھا کہ بہت خوار کرواتے ہیں۔ عجیب عجیب سوالات کرتے ہیں۔ آباء و اجداد کی تاریخ کھنگالتے ہیں۔ ٹوکن لیا، نمبر آیا، فارم فل کیا۔ رسمی سے سوالات پوچھے اور اوکے کر دیا۔ آدھے دن میں کام ہوگیا، پندرہ دن بعد پاسپورٹ ہاتھ میں تھا۔ دوسرے دن ایجنٹ کو دیا۔ رات تک ٹکٹ ہو گئے اور چار دن بعد سعودیہ سے ویزا بھی لگ گیا۔ جہاز میں بیٹھنے تک ایک غیریقینی اور سرشاری کی کیفیت تھی۔ ایک بہت پیاری سہیلی نے کہا کہ جب بلاوا آجاتا ہے تو ایسے ہی پلک جھپکتے سب کام ہوتے ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا۔
اور اب وہ حرم کے اندر اس کی بارگاہ میں حاضر تھی۔ اس کا دل بہت سخت تھا۔ گناہوں نے اس کے دل کو پتھر کر دیا تھا۔ وہ بےحس ہو گئی تھی۔ بڑی سے بڑی غلطی پر، صدمے پر اسے رونا نہیں آتا تھا۔ وہ بہت ڈرپوک اور بزدل لڑکی تھی مگر جاب نے اسے بہادر اور سخت دل بنا دیا تھا۔ لوگ اس کی بہادری کو سراہا کرتے تھے۔ مگر وہ خود اپنے دل کی اس سختی سے بہت ڈرا کرتی تھی۔ کوشش کرتی تھی کہ روئے تاکہ دل نرم ہو مگر آنسو آنکھوں سے روٹھ چکے تھے۔کوئی بھی غم اسے کچھ دیر افسردہ کرتا مگر آنکھوں کا دریا خشک رہتا۔
بس اب سیڑھیاں چڑھنے کے بعد سامنے ہی خانہ کعبہ ہے۔ بھائی پہلے عمرہ ادا کر چکے تھے سو گائیڈ کر رہے تھے۔
پہلی نظر پڑے تو ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار والی دعا پڑھ لینا۔ بھائی تاکید کر رہے تھے۔
اس نے سنا تھا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر میں جو دعا مانگی جائے وہ مقبول ہوتی ہے تو اس نے بہت ساری دعائیں سوچ رکھی تھیں کہ یہ سب ایک ساتھ مانگ لوں گی۔ وہ نظریں جھکائے فرش دیکھتے آگے بڑھتی گئی۔
بس یہ دیکھو، یہ ہے خانہ کعبہ۔ بھائی کی آواز میں سرشاری تھی۔
اس نے نگاہیں اٹھائیں، سامنے ہی سیاہ رنگ کی خوبصورت پرجلال دنیا کی مقدس ترین عمارت تھی، خانہ کعبہ، اللہ کا گھر، ہیبت و جلال کی ایک لہر تھی جو پورے جسم کو لرزا گئی، نظریں جھکنا بھول گئیں۔ دل میں ایک درد سا اٹھا، میرے اللہ، اور وہ پھوٹ پھوٹ کر زار و قطار رو رہی تھی، ساری دعائیں لبوں پر ہی دم توڑ گئیں۔ کیا کہنا تھا، کیا مانگنا تھا، اس کو کچھ یاد نہ تھا، آنسو سب کہہ رہے تھے، اے میرے اللہ ، اے میرے مالک، اس کا رواں رواں بلک رہا تھا، فریاد کر رہا تھا۔ میں گناہ گار، میں خطاکار، میں سیاہ کار، مجھ پر اتنا کرم، مجھ پر اتنی نوازش، میں اس قابل کہاں مالک، معاف کر دے، معاف کر دے مالک، اللہ، میرے اللہ۔
وہ ہچکیوں کے ساتھ اپنے رب سے ہم کلام تھی، اس کی دل کی ساری سختی ان آنسوئوں سے دھل رہی تھی، وہ بلک رہی تھی اور ایک وہی نہیں، یہاں ہر طرف یہی حال تھا، کوئی چیخ چیخ کر رو رہا تھا، کوئی بے آواز آنسوئوں سے۔ کوئی سسکیوں سے لرز رہا تھا تو کوئی ہچکیوں سے ہچک رہا تھا.
اور اس کا رب، اس کا مالک مسکرا کر محبت سے اپنے بندوں کو دیکھ رہا تھا، میں نے کہا تھا نا کہ میں تمھاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں۔ تم مجھے پکارو اور میں نہ سنوں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ آئو ، دیکھو، میں تمھارے پاس ہی ہوں۔ اور وہ ہر ایک کو تھپک رہا تھا، تسلی دے رہا تھا، پیار کر رہا تھا، اور سب کے دلوں کو سکینت ہو رہی تھی۔ اطمینان تھا، سکون تھا، آرام تھا کہ ان کا رب ان کے ساتھ ہے، ان کے پاس ہے، ان کی سن رہا ہے۔ بیشک سمع اللہ لمن حمدہ۔
آنسؤں پر بلا کسی کا اختیار کب ہوا ہے...