ہوم << علامہ اقبال کا تصورتعلیم - فیصل اقبال

علامہ اقبال کا تصورتعلیم - فیصل اقبال

افراد اور اقوام کی زندگی میں تعلیم و تربیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، افراد کی ساری زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے اور اقوام اپنے تعلیمی فلسفہ کے ذریعہ ہی اپنے نصب العین، مقاصد حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے قومی زندگی کے اس اہم پہلو پر گہرا غور و خوص کیا ہے۔ اور اپنے افکار کے ذریعہ ایسی راہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک زندہ اور جاندار قوم کی تخلیق کا باعث بن سکے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح ہم نے قرآن کو بےمثل مان کر اپنی زندگیوں سے سائیڈ لائن کر دیا ہے بالکل اسی طرح ہم نے اقبال کو’’شاعرمشرق‘‘، ’’مفکرِ پاکستان‘‘ اور ’’حکیم الامت‘‘ جیسے القابات دے کر عملی زندگی سے بے دخل کر دیا ہے۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ اب تو English میڈہم کی بدولت ہم میں سے اکثر اقبال کے اشعار سمجھنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ آئیں چند سادہ اور آسان اشعار کے ذریعے اقبال کے تصورتعلیم پر غور کرتے ہیں
اقبال کے دور کی طرح آج بھی ہم عصر ( contemporary) نظاموں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ملک اور قوم کی امنگوں اور مقاصد کی ترجمانی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ سب سے بڑی خرابی بےمقصدیت اور حصولِ معاش کے لیے تعلیم کا حصول ہے. ہماری تعلیم کی روح بلند مقاصد سے خالی ہے، اس کا نصب االعین صرف معاش کا حصول ہے اور یہ نوجوانوں کو پیٹ کا غلام بنا کر اسے دنیاوی لذتوں میں اُلجھا دیتی ہے، اس طرح بلند مقاصد سے وہ بالکل عاری ہو جاتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں:
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہو جہاں میں دو کف جو
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکر معاش
مغربی تعلیم کی بنیاد ہی مادیت پرستی اور عقل پرستی ( Rationalism ) ہے. اقبال اس بارے میں فرماتے ہیں:
ہو اگر خام تو آزادی افکار
انسان کو حیوان بنانے کاھے طریقہ
اس تعلیم نے نوجوانوں کو مذہب سے بالکل بے زار کردیا ہے.
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ
اور ایک جگہ فرماتے ہیں:
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سارا نصاب اغیار کے ملحدانہ افکار پر مبنی ہے۔ سارے کا سارا جدید تعلیمی نظام لارڈ میکالے کے فکر کی پیداوار ہے۔ اس نظام تعلیم میں نوجوانوں کو مختلف قسم کے کھیل تماشوں اور فیسٹیولز میں مصروف کر دیا گیا ہے، اور آرٹ اور کلچر کے نام پر ہر قسم کی فحاشی کی اجازت ہے۔ اس قسم کی تعلیم پر آج کل زیادہ سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے. علامہ اس پر فرماتے ہیں:
محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی
موسیقی و صورت گری و علمِ نباتات
اقبال عورت کے لیے تعلیم کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس تعلیم کا نصاب ایسا ہونا چاہیے جو عورت کو اس کے فرائض اور اس کی صلاحیتوں سے آگاہ کرے اور اس کی بنیاد دین کے عالمگیر اُصولوں پر ہونی چاہیے۔ صرف دنیاوی تعلیم اور اس قسم کی تعلیم جو عورت کو نام نہاد آزادی کی جانب راغت کرتی ہو، علامہ کے خیال میں بھیانک نتائج کی حامل ہوگی
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
اس نظام تعلیم میں تدریس کی ذمہ داری جن لوگوں کے سپرد کی گئی ہے، وہ خود بےبہرہ ہیں۔ وہ نہ ان علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں جو وہ پڑھاتے ہیں اور نہ تعلیم کے حقیقی مقاصد سے آشنا ہیں، اور جسے خود راہ کی خبر نہ ہوگی وہ دوسرے کی رہنمائی کیونکر کر سکتا ہے
شکایت ہے مجھے یا رب خُداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
اقبال جس تعلیم کی ترغیب دینا چاہتے ہیں؛ اس کا نقشہ وہ یوں کھینچتے ہیں
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کا م دنیا کی امامت کا
اس تحریر کا مقصد بس اس جانب توجہ دلانا ہے کہ ہم نے تعلیمی کامیابی کا معیار اعلیٰ عہدہ اور اچھی پوسٹ، اچھی انگریزی سیکھ لینے تک محدود کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل نمبروں اور ڈگری کے علاوہ کسی چیز کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ تعلیم کا ایک گمشدہ مقصد اخلاقیات کی تعمیر اور اچھےاور صالح لوگ پیدا کرنا بھی ہے. علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں اس جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے.