ہوم << کیا انسان اللہ کی مرضی سے کفر کرتا ہے؟ قاضی محمد حارث

کیا انسان اللہ کی مرضی سے کفر کرتا ہے؟ قاضی محمد حارث

قاضی حارثگذشتہ دنوں کسی نے ایک سوال کیا تھا کہ اگر انسان کفر کرتا ہے تو اللہ کی مرضی سے کرتا ہے کیونکہ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے تو اس پر انسان کو عذاب کیوں دیا جائے گا؟ جواب میں کوشش کروں گا کہ صرف قران سے ہی دوں تاکہ تشفی بخش جواب اللہ ہی کی طرف سے مل جائے۔
یہ اشکال مشرکین مکہ کے زمانے کا ہے: سورہ انعام دیکھیے
[pullquote]سَيَقُوْلُ الَّـذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّـٰهُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَىْءٍ ۚ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ حَتّـٰى ذَاقُـوْا بَاْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا ۖ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُـمْ اِلَّا تَخْرُصُونَ (148)
[/pullquote] ’’اب مشرک کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا شرک کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرتے، اسی طرح ان لوگوں نے جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ہمارا عذاب چکھا، کہہ دو کہ تمہارے ہاں کوئی ثبوت ہے تو اسے ہمارے سامنے لاؤ، تم فقط خیالی باتوں پر چلتے ہو اور صرف تخمینہ ہی کرتے ہو۔‘‘
یعنی یہی عذر پیش کیا جاتا ہے کہ ہم اگر شرک کرتے ہیں تو اللہ کی مرضی سے کرتے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ان مشرکین سے پہلے کے لوگوں نے بھی یہی بہانہ بنا کر شرک کیا تھا لیکن ان کے پاس کوئی دلیل اس بات کی موجود نہیں ہے کہ اللہ ان سے شرک کروانا چاہتا ہے یا وہ ان کے شرک پر راضی ہے۔
آگے فرمایا:
[pullquote]قُلْ فَلِلّـٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَآءَ لَـهَدَاكُمْ اَجْـمَعِيْنَ (149)
[/pullquote] ’’کہہ دو پس اللہ کی حجت پوری ہو چکی، سو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کر دیتا۔‘‘
اب اسی آیت سے معلوم ہورہا ہے کہ اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر مجبور کردیتا لیکن وہ ہدایت جبری نہیں چاہتا بلکہ ہدایت اختیاری چاہتا ہے ، قران میں سورہ کہف آیۃ 29 میں فرمایا:
[pullquote]فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ
[/pullquote] ’’جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔‘‘
یعنی ایمان و کفر دونوں انسان کے اختیار میں رکھے ہیں لیکن ساتھ ہی بتا دیا کہ کفر اختیار کرو گے تو عذاب پاؤ گے۔ تفصیل یوں سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادے سے اشیاء یا اعمال کو پیدا کرتا ہے اور پھر انسان کو اختیار دے دیتا ہے کہ جو وہ چاہے اس کو اختیار کرلے، اچھے اعمال کا حسن اور برے کی شناعت بھی بیان کردیتا ہے۔ پھر جب انسان عمل اختیار کرلیتا ہے تو پھر اللہ کا وہ قانون اس پر لاگو ہوجاتا ہے جو سورہ بقرہ آیہ 286 میں ہے کہ:
[pullquote]لَها ما كَسَبَتْ وَعَلَيْها مَا اكْتَسَبَتْ
[/pullquote] ’’جو اچھے کام کرے گا اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جو برے کام کرے گا اس کا نقصان بھی اسی کو ہوگا۔‘‘
مسئلہ یہاں پیدا ہوا کہ لوگوں نے اللہ کی ’’مشیت‘‘ اور ’’رضا‘‘ کو ایک ہی چیز سمجھ لیا۔ یہ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اللہ سارے کام اپنے ارادے اور مشیت سے کرتا ہے لیکن اس کے ہر کام میں اس کی رضا شامل نہیں ہوتی۔ بلکہ کچھ کام ایسے ہیں جو وہ بغیر رضا کے کرتا ہے کیونکہ بندہ اس کو کرنے پر مصر ہوتا ہے تو رب اس کو تخلیق کر دیتا ہے۔ جیسے آپ بچے کو کسی چیز کے نقصانات بتا دیں لیکن وہ پھر بھی بضد ہوجائے اس چیز کو خریدنے پر تو آپ اس کی ضد کی خاطر اسے خرید کر دے دیں۔ چنانچہ اللہ انسان کے کفر اختیار کرنے پر ہرگز راضی نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کا اپنا اختیار ہوتا ہے چانچہ ارشاد ہے سورہ زمر آیۃ 7:
[pullquote]وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ
[/pullquote] ’’اللہ اپنے بندوں کے کفر کو اختیار کرنے پر راضی نہیں ہوتا۔‘‘
اس نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ انسان اگر اچھے کو اختیار کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے اچھے کی طرف پھیر دیتے ہیں اور اگر برا اختیار کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے برے کی طرف پھیر دیتے ہیں. سورہ نساء آیۃ 115 میں ارشاد ہے:
[pullquote]نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ
[/pullquote] ’’جدھر انسان چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیتے ہیں۔‘‘
سو معلوم ہوگیا کہ انسان کو اختیار حاصل ہے وہ مجبور محض نہیں ہے۔ اچھا کرے گا تو اسے اللہ کی مدد حاصل ہوگی اور اس میں بھی توفیق ملے گی لیکن اگر برا کرے گا تو وہاں بھی غیبی ہاتھ اسے روکنے نہیں آئے گا اور اسے چھوٹ دی جائے گی۔ یہی خیر و شر کی جنگ ہے اور اس جنگ میں خیر کو اختیار کرنے پر انعام کا وعدہ ہے۔
واللہ اعلم