ہوم << انٹروورٹ ہونا کوئی خامی نہیں ہے - سید راشد حسن

انٹروورٹ ہونا کوئی خامی نہیں ہے - سید راشد حسن

راشد حسن ’سر! بہت زیادہ لوگ کسی جگہ جمع ہوں یا کوئی فنکشن یا شادی وغیرہ ہو رہی ہو تو وہاں میرے دم سا گھٹنے لگ جاتا ہے۔ مجھ پر عجیب سی بیزاری طاری ہونے لگ جاتی ہے۔ دل وہاں سے بھاگنے کا کرنے لگتا ہے۔ کبھی فیملی میں کوئی سیر کا پروگرام بن رہا ہو یا کوئی دعوت وغیرہ پلان ہو رہی ہو تو میری پہلی خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس میں مجھے شامل نہ ہی کیا جائے، میری اس عادت سے تو لوگ بہت ہی تنگ ہیں۔ مجھ سے زیادہ دوست بھی نہیں بنائے جاتے، نئے اور اجنبی لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے تو میری جان جانے لگتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا میں ایسی کیوں ہوں؟۔‘
’تمھاری شخصیت بنیادی طور پر انٹروورٹ (introvert) ہے۔ اس طرح کی پرسنالٹی کے لوگ اپنی دنیا میں مگن رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے تنہائی اور خود کی کمپنی وہی اکثیری حیثیت رکھتی ہے جیسے جاندار کے زندہ رہنے کے لیے آکسیجن ضروری ہوتی ہے۔ یہ لوگ بہت زیادہ سوشل ہونا افورڈ نہیں کر سکتے کیونکہ میل جول ان کی پرسنل کیمسٹری کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کی دلچسپی زیادہ تر ان مشاغل تک محدود رہتی ہے جن میں کسی اور کا ساتھ نہ چاہیے ہو جیسے کتب بینی، کمپیوٹرگیمز یا دوسرے ان سے ملتے جلتے شوق ان کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ یہ اپنے سے مختلف (extroverts) کے مقابلے میں ہوتے کم تعداد میں ہیں لیکن پھر بھی ایک ریسرچ کے مطابق ہماری سوسائٹی کا ایک چوتھائی حصہ (introverts) پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے تمہاری یہ آدم بیزاری کوئی انوکھی بات نہیں ہے ۔‘
’سر ! لیکن یہ دنیا تو صرف (extroverts) کے لیے بنی ہے۔ یہاں وہی کامیاب ہے جس کو لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا اور بولنا چلنا آتا ہو، جو پراعتماد ہو جو کسی بھی محفل کو (energize) کر سکے۔ جس کی ٹانگیں نئے لوگوں اور سیچویشنز کو دیکھ کر نہ کانپیں۔ اپنے آپ میں گم رہنے والے تو بس ہمارے ہاں مذاق کا نشانہ ہی بنتے رہتے ہیں‘۔ اس کا پوائنٹ ویسے کوئی اتنا غلط بھی نہ تھا یہ درست ہے کہ ہماری بلکہ ہر جگہ کی سوسائٹی (extroverts) کے لیے زیادہ مطابقت (compatibility) رکھتی ہے۔ یہاں لوگوں میں اپنا زور بازو منوانے اور لیڈری چمکانے والوں کی ہی واہ واہ ہوتی ہے اور ہر جگہ ترقی کے دروازے ایسے لوگوں کے لیے زیادہ آسانی سے کھل جاتے ہیں۔ دوسری جانب انٹروورٹس (introverts) کو ہر جگہ اپنے متلون مزاجی کی وجہ سے طعنہ ہی سننے کو ملتے ہیں۔ ان سب حقائق کے باوجود اس معاملہ کا ایک اور پہلو بھی اس کا بتانا ضروری تھا۔ ’اگر تمہارے پوائنٹ کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بیشتر جرائم، قانون شکنی اور اس طرح کے دوسرے قابل گرفت رویے بھی (extroverts) میں پائے جاتے ہیں۔ بری صحبت سے لے کر نشہ کا شکار بھی حد سے زیا دہ خود اعتماد اور رسک لینے والے لوگ کرتے ہیں۔ لوگوں میں نام بنانے کےلیے اس طرح کے لوگ پتہ نہیں کیا کیا بےوقوفیاں کر بیٹھتے ہیں اور کئی تو اپنی جان سے تک ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں انٹروورٹس اس طرح کے گڑھوں میں گرنے سے بچے رہتے ہیں اور ان میں اعتماد کی کمی اور گوشہ نشینی بہت سی مصیبتوں کو ان کے دروازے پر دستک دینے سے روکے رکھتی ہے۔ اس لیے انٹروورٹ ہونا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے‘۔
یہ بات سن کر کچھ دیر تو وہ خاموش رہی. پھر بولی ’سر ! میں یہ سمجھتی ہوں کہ میری اس نیچر کو بنانے میں میرے والدین کا بھی اہم رول رہا ہے۔ میں ان سے اکثر شکایت کرتی ہوں کہ انھوں نے مجھے وہ چالاکی اور ہوشیاری نہیں سکھائی جس سے میں لوگوں کے اچھے، برے کو فیس کر سکو‘ ۔ میرے لیے اس کا یہ زاویہ نظر غیرمتوقع تھا، اس لیے میں اسے کریدتے ہوئے پوچھا کہ ’تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان کی طرف سے کوئی کمی تھی؟ ان کی کوئی عادت یا واقعہ تم (corelate) کر سکتی ہو جس سے یہ اندازہ ہو کہ تمہاری یہ شکایت جائز ہے‘۔
میرا یہ سوال سن کر کچھ دیر تو وہ سوچتی رہی پھر بولی کہ ’سر ! مجھے بچپن سے ایک شیل (shell) میں بند رہنے کی عادت ہے۔ میرے والدین نے کبھی اس شیل کو توڑنے کی کوشش نہیں کی، انھوں نے نہ تو دوسروں کی طرح میری تنہائی پسندی کو تنقید کا نشانہ بنایا نہ ہی میرے رشتہ داروں اور دوستوں سے کم ملنے جلنے پر زیا دہ اعتراض کیا۔ میرے بابا تو مجھے تحفہ بھی کتابوں کا دیتے رہے تاکہ مجھے دوستوں کی کمی محسوس نہ ہو اور میری اس طرح کی دوسری (one man army type) سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی بھی ہمیشہ ان کا شیوہ رہا ہے۔ مجھے شروع سے اپنے لیے کسی کو کچھ کہنے کی عادت نہیں تھی اس لیے میری ضرورتوں کا بن کہے خیال رکھا جاتا رہا۔ اور مجھے پرسنل سپیس جس طرح چاہیے ہوتی تھی وہ مجھے دینے کی پوری کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس وجہ سے میرے گرد قائم شیل مزید مضبوط ہوتا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ میری (introvert) عادتیں مزید پختہ ہوتی چلی گئی۔‘
’دیکھو! اولاد کی تربیت ایک مشکل کام ہے۔ یہ کبھی بھی پرفیکٹ نہیں ہو سکتی۔ لیکن میری رائے میں تمھارے والدین نے درست طریقے سے اپنی بیٹی کو ہینڈل کیا ہے۔ یہ تو ایک طے شدہ سائنٹفیک فیکٹ ہے کہ انٹروورٹ ہوناایک پیدائشی صفت ہے اور وقت، ماحول اور کوشش کے ساتھ اس کی تبدیلی ناممکن ہے۔ اس طرح کے افراد کو اگر بہت زیادہ ناموافق ماحول ملے تو وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تمھیں تو اپنے والدین کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انھوں نے تمہارے مزاج کو شروع میں ہی بھانپ کر اس کو بدلنے کی کوشش کرنے کے بجائے تمہیں ایڈجسٹ ہونے کا موقع دیا ورنہ دوسری صورت میں کوئی بھی ری ایکشن تمہیں عدم توزان سے بھی دوچار کر سکتا تھا۔ اگر باقی لوگوں کی طرح وہ بھی تمہارے انٹروورٹ شیل کوتوڑنے میں لگ جاتے تو تم بہت مشکل میں پڑ سکتی تھیں۔
اصل میں مسئلہ نہ تمھارا مزاج ہے، نہ تمھاری تربیت اور نہ ہی دوسرے لوگوں کی تمھاری بارے میں رائے ہے۔ ایشو اپنی ذات کے بارے میں تمھاری منفی سوچ ہے۔ دیکھو! اگر انٹروورٹ ہونا کوئی برائی یا خامی ہوتی، آئزک نیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک دنیا کے بیشتر سائنسدان اور فلاسفر اپنی اس کمزوری کی وجہ سے دنیا کو تبدیل نہ کر پاتے۔ تم بھی جب تک اپنے آپ کو یہ نہیں سمجھا پائو گی کہ تم نے اپنے مزاج کے مطابق زندگی گزارنی ہے، اس وقت تک دنیا کو تبدیل کرنا تو کجا تمھاری اپنی زندگی عذاب میں رہے گی۔ جس طرح تمھارے والدین نے تمہیں (accept) کیا اور تمھیں اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کی، اسی طرح اب تمہھں اپنے آپ کو جیسی تم ہو (accept) کرنا ہوگا۔ ورنہ میں ایسی کیوں ہوں؟ کا خطرناک سوال اور اپنے آپ سے مایوسی ایک دن تمہاری وجودکی جڑوں کو کھوکھلا کر دے گا اور تمہاری ساری انرجی چوس کر تمھیں ڈیپریشن کا مریض بنا دے گی۔ اس لیے اپنے آپ سے خوش رہنا اور اپنی طبعیت کے مطابق ایڈجسٹ ہونا جتنا جلدی سیکھ لوگی اتنا تمھارے لیے بہتر ہوگا۔

Comments

Click here to post a comment