انواع حیوانی کے مطالعہ سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ ان میں صنفی تقسیم اور طبعی میلان کا مقصد محض بقائے نوع ہے۔ اس لیے ان میں یہ میلان اس حد تک رکھا گیا ہے جو ہر نوع کی بقا کے لیے ضروری ہے اور ان کی جبلت میں ایسی قوت ضابطہ رکھ دی گئی ہے جو انھیں صنفی تعلق میں اس حد مقرر سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ انسان میں یہ میلان غیر محدود، غیر منضبط اور تمام انواع سے بڑھا ہوا ہے ۔ ان کے قلب میں صنفی محبت اور عشق کی زبردست قوت رکھی گئی ہے۔ ان کے جسم کی ساخت اور اس کے تناسب اوررنگ و روپ ، اور اس کے لمس اور اس کے ایک ایک جز میں صنف مقابل کیلئے کشش پیدا کردی گئی ہے اور گرد و پیش کی دنیا میں بےشمار ایسے اسباب پھیلا دیے گئے ہیں جو دونوں کے داعیات صنفی کو حرکت میں لاتے اور انہیں ایک دوسرے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ، پانی کی روانی، سبزہ کا رنگ، پھولوں کی خوشبو، بہتی آبشاریں، فضا کی گھٹائیں، شب مہ کی لطافتیں، غرض جمال فطرت کا کوئی مظہر اور حسن کائنات کا کوئی جلوہ ایسا نہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس تحریک کا سب نہ بنتا ہو۔
یہ سب کچھ کس لیے ہے؟ کیا محض بقائے نوع کے لیے ہے؟ نہیں۔ کیونکہ نوع انسانی کو باقی رکھنے کےلیے اس قدر کشش کی بھی ضرورت نہیں ہے جس قدر مچھلی بکری اور ایسی دوسری انواع کے لیے ہے؟ کیا یہ محض لذت کے لیے ہے؟ یہ بھی نہیں ۔ فطرت نے کہیں بھی لطف اور لذت کو مقصود بالذات نہیں بنایا ہے۔ غور کیجیے کہ اس معاملہ میں کون سا بڑا مقصد فطرت کے پیش نظر ہے؟ آپ جتنا غور کریں گے کوئی اور وجہ اس کے سوا سمجھ نہیں آئے گی کہ فطرت دوسری تمام انواع کے خلاف ، نوع انسانی کو متمدن بنانا چاہتی ہے۔
مذہب صنفی یلان کو افراط و تفریط سے روک کر توسط عدل پر اور اسے ایک مناسب ضابطے سے منضبط کرتاہے، اور ایک غیر معتدل ہیجان و تحریک کے ان تمام اسباب کو روکتا ہے جنہیں انسان نے خود اپنی لذت پرستی کےلیے پیدا کیا ہے اور دوسری طرف فطری ہیجان کی تسکین و تشفی کے لیے ایسے راستے کھولتا ہے جو خود منشائے فطرت کے مطابق ہوں۔ چنانچہ حضرت عمرنے فرمایا کہ نکاح سے صرف دو ہی چیزیں روکتی ہیں عاجز ہونا یا بدکار ہونا۔ حضرت ابن عباس کے مطابق عابد کی عبادت پوری نہیں ہوتی جب تک کہ وہ شادی نہ کرلے۔ بقول امام غزالی نکاح والے کی فضیلت مجرد پر ایسی ہے جسے جہاد کرنے والے کی نہ جانے والے پر
مذہب نے صنفی افراط کو روکنے کےلیے کچھ حدود وضع کر رکھی ہیں۔ لیکن افسوسناک بات ہے کہ ایک طبقہ مسلمانوں والے نام رکھ ان حدود کا مذاق اڑاتا اور استہزائیہ انداز میں تذکرہ کرتا ہے۔ غض بصر (نگاہیں بچا کر رکھنا) کو ایک صاحب نے مولویوں کی ایجاد کردہ اخترع قرار دے کر عقل و فہم سے عاری چیز قرار دیا۔ کہا گیا کہ یہ ذوق جمال ہے جو فطرت نے تم میں ودیعت کیا ہے۔ جمال فطرت کے دوسرے مظاہر و تجلیات کو جب تم دیکھتے ہو اور ان سے لطف اٹھاتے ہوتو جمال انسانی کو بھی دیکھو اور روحانی لطف اٹھاؤ۔ تو جناب، شریعت کا اصل مقصد نظر بازی سے روکنا ہے، ورنہ اسے آپ کی آنکھوں سے کوئی دشمنی نہیں۔ یہ ذوق جمال ترقی کرکے شوق وصال بن جاتا ہے۔ کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کی جرات رکھتا ہو کہ دنیا میں جس قدر بدکاری اب تک ہوئی اور اب ہو رہی ہے اس کا پہلا اور سب سے بڑا محرک یہی آنکھوں کا فتنہ ہے۔ مذہب تمہارے ذوق جمال کو مٹانا نہیں چاہتا وہ تو کہتا ہے کہ تم اپنی پسند کے مطابق اپنا ایک جوڑا انتخاب کرلو۔ اور جمال کا جتنا ذوق تم میں ہے اسکا مرکز صرف اسی کو بنالو۔ پھر جتنا چاہوں اس سے لطف اٹھاؤ۔ اس مرکز سے ہٹ کر دیدہ بازی کروگے تو فواحش میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ تمہاری بہت سے قوت آنکھوں کے راستے ضائع ہوجائے گی۔ بہت سے ناکردہ گناہوں کی حسرت تمہارے دل کو ناپاک کردے گی۔ تمہاری بہت سی قوت حیات دل کی دھڑکن اور خون کے ہیجان میں ضائع ہوجائے گی۔
مختصراً، مذہب صنفی میلان کو انتشار عمل سے روک کر ایک ظابطہ میں لانے کا ہے۔کیونکہ اس کے بغیر تمدن کی شیرازہ بندی ہی نہیں ہوسکتی اور اگر ہو بھی جائے تو اس شیرازہ کو بکھرنے اور انسان کو شدید اخلاقی و ذہنی انحطاط سے بچانے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اس غرض کیلئے اسلام نے عورت اور مرد کے تعلقات کو مختلف حدود کا پابند بنا کر ایک مرکز پر سمیٹ دیا ہے۔
تبصرہ لکھیے