ہوم << ڈاکٹرذاکرنائک کے خلاف محاذ - محمد عتیق الرحمٰن

ڈاکٹرذاکرنائک کے خلاف محاذ - محمد عتیق الرحمٰن

ڈاکٹر ذاکر نائک اسلام کے حق میں دلائل کی رو سے بات کرنے میں مشہور ہیں اور تقابل ادیان میں مہارت تامہ، اور عیسائیت، یہودیت، بدھ مت، ہندو و دیگر مذاہب کی تعلیمات پر عبور رکھتے ہیں۔ ٹی وی سکرین کے مطابق مروجہ چہرہ نہ ہونے کے باوجود شہرت ان پرٹوٹ پڑتی ہے۔ روایتی علماء و مشائخ سے ہٹ کر پینٹ کوٹ ،ٹائی اور سر پر سفید ٹوپی پہننے والے عبدالکریم ذاکر نائک 8 اکتوبر 1965ء کو ممبئی میں پیدا ہوئے اور پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ تقابل ادیان پر انھیں سند کا درجہ حاصل ہے۔ اپریل 2001ء کی یکم تاریخ کو معروف عیسائی سکالر ولیم کیمبل سے شکاگو میں ہونے والے کئی گھنٹوں پر مشتمل مناظرے میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے ولیم صاحب کے ہر اعتراض کو دلائل سے غلط ثابت کیا۔ ولیم کیمبل کا کہنا تھا قرآن مجید میں 100 کے قریب سائنسی غلطیاں ہیں۔ ڈاکٹر نائیک نے نہ صرف دلائل سے ثابت کیا کہ ایسی کوئی غلطی قرآن مجید میں نہیں پائی جاتی بلکہ بائبل میں کئی سائنسی غلطیوں کی طرف ولیم کیمبل کی توجہ مبذول کروائی، ولیم کیمبل ڈاکٹر ذاکر نائیک کی کسی بھی بتائی گئی غلطی کا جواب نہ دے سکے اور اپنی شکست تسلیم کرلی ۔اسی طرح کے اور مناظروں میں ڈاکٹر ذاکر نائک حق کا علم بلند کر چکے ہیں ۔ 1987ء میں عبدالکریم ذاکر نائک تقابل ادیان کے مشہور ماہر عالم دین احمد دیدات سے ملاقات کے دوران متاثر ہوئے اور اسی اثر سے1991ء میں انہوں نے دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا اور اسلامک ریسرچ فائونڈیشن کی بنیاد ڈالی. یونائیٹڈ اسلامک ایڈ کی مددسے اسلامک انٹرنیشنل سکول ممبئی میں قائم کیا، اسلام کی تبلیغ اور اسلام کا امن کا پیغام گھر گھر پہنچانے کے لیے پیس ٹی وی کی بنیاد رکھی جس کی کئی زبانوں علاقائی نشریات جاری ہیں۔ ذاکر نائک کو ان کی خدمات دین کی وجہ سے اب تک جولائی 2013ء کی مسلم شخصیات پر دبئی انٹرنیشنل ایوارڈ، نومبر 2013ء میں ملائیشیا کی جانب سے تمغہ امتیاز اور فروری 2015ء میں سعودی عرب کی طرف کنگ فیصل ایوارڈ مل چکا ہے۔
عالم اسلام کی معروف و مشہور اسلامی شخصیت اس وقت مشکل میں گھری ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں ڈھاکہ کے ایک کیفے پر ہوئے حملہ میں ایک مبینہ دہشت گرد روحان امتیاز ڈاکٹر ذاکر نائک سے متاثر ہے۔ اس حملہ میں ایک ہندوستانی لڑکی سمیت 22 افراد مارے گئے تھے۔ اسی بات کو لے کر انڈین میڈیا نے ڈاکٹر ذاکر نائک کا ٹرائل شروع کردیا اور مودی حکومت ڈاکٹر ذاکر نائک کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان کی املاک کی جانچ پڑتا ل کر رہی ہے۔ روحان امتیاز گذشتہ سال فیس بک پر ایک پروپیگنڈہ مہم بھی چلاتا رہا۔روحان امتیاز کی ڈاکٹر ذاکر نائک سے بالمشافہ ملاقات ہوئی نہ اس کا ان سے کسی بھی قسم کا تعلق ہے۔ صرف ایک حوالہ جو اس نے ذاکر نائک کی تقریر کا دیا ہے، اس کو لے کر اسلام کے اس سکالر کو ہندوستان میں ہراساں کیا جارہا ہے۔ ہندو میڈیا آئے د ن کوئی نہ کوئی بات ان کے خلاف ایک نئے زاویے سے کرتا ہے حالانکہ ڈاکٹر ذاکر نائک نے کبھی بھی اپنی کسی بھی تقریر میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ وہ اسلام کی صاف ستھری تصویر دنیا کے سامنے دلائل کے ساتھ رکھتے ہیں۔ ذاکر نائک نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی بھی ایسا خطاب نہیں کیا جس میں کسی معصوم کی جان لینے کی بات کی ہو، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ انہوں نے میڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ان کے بیانات توڑ مروڑ کر پیش کیے جا رہے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے صدر ، رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے ذاکر نائک کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عرصہ 25 سال سے ڈاکٹر ذاکر نائک ہر مذہب کے رہنمائوں سے مذاکرات کرتے آئے ہیں اور اسلام کے حوالے سے پھیلی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا کام کررہے ہیں ۔لیکن ان کے ذریعے کبھی بھی دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔
داعش جیسی تنظیمیں اسلام کا نام لے اسلام کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں تو وہیں ڈاکٹر ذاکرنائک جیسی شخصیات دنیا کے سامنے اسلام کی امن و سلامتی والی تعلیمات دنیا کے سامنے رکھ رہی ہیں۔ دنیا کو ایسے دانش وروں، سکالرز اور قلم کاروں کی اشد ضرورت ہے جو امن وآتشی کا سبق دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں ان دہشت گردانہ نظریات کی بھینٹ نہ چڑھیں۔ جہاں دنیا کفر متحد ہو کر اب مسلم سکالرز اور دیگر اسلام کا دفاع کرنے والوں کے خلاف سامنے آگئی ہے وہیں کچھ ناعاقبت اندیش لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں، ہمیں ددوسری صف میں کھڑے نظر آرہے ہی ۔ مسلکی اختلافات کو ہوا دیتے یہ افراد جانتے نہیں کہ دشمن مسلک سے ہٹ کر صرف اسلام کو نشانہ بنا رہا ہے ۔ ایسے میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے نا کہ مسلکی اختلافات کی بناپر صف دشمناں میں کھڑے ہو کر اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کریں۔ جہاں مسلم حکومتوں کو اس معاملے میں ڈاکٹر ذاکر نائک جیسی شخصیات کا دفاع کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرناچاہیے وہیں مسلم ممالک کا میڈیا ایسے مسلم اسکالرز کی خدمات کو دنیا کے سامنے لائے تاکہ دنیا تک اصل حقیقت پہنچ سکے ۔