ہوم << بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے-محمد طاہر

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے-محمد طاہر

پیارے وطن عزیز میں سیاسی نشیب و فراز اور ہلچل دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے اور کب تک ہوتا رہے گا؟ کب ہمارے عوام اور اکابرین کو عقل آئے گا اور ماضی سے سبق حاصل کریں گے؟ وہ لیڈر ان قوم جو جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کے احترام کے دعوی دار تھے اب وہ کیا کر رہے ہیں ؟آیا ان کو ماضی یاد نہیں، 1970 کا سانحہ یہ بھول چکے ہیں کہ عوامی رائے کا احترام نہ کر کے قائد اعظم کی روح اور علامہ اقبال کے خواب کو دولخت کر دیا گیاتھااور پاکستان کا ایک بازو کٹ کر بنگلہ دیش بن گیا ۔اس کے ذمہ داران کون تھے؟ اس کا ابھی تک تعین نہ ہو سکا ۔میرے ناقص خیال میں اس کی دو وجوہات تھیں۔۔ بے مقصد انتخابات اور ناقص نظم و نسق ۔۔بے مقصد الیکشن اس لیے کہ جب اکثریت کو ان کا حق نہیں ملتا تو اس سے بہتر شخصی طرز حکومت ہے۔ نہ اختلاف نہ خرچہ نہ وقت کا ضیا ع۔۔ناقص طرز حکومت سے میرا مطلب نظم و نسق سے عاری حکمران، کیونکہ طاقت سے حکومت چلائی جا سکتی ہے اور نا معیشت بہتر ہو سکتی ہے ۔تاریخ اسلام اس کی گواہ ہے ۔ امیر المومنین فاروق اعظم کے دور میں مشہور جرنیل حضرت خالد بن ولید نے بہت سے ممالک کو فتح کیا ۔ آپ کا نام فتح کی علامت بن گیا ۔عین اسی دوران امیر المومنین نے خالد بن ولید کو امارت سے ہٹایا اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو مفتوحہ علاقوں کا عامل بنایا۔ جس پر خالد بن ولید نے خفا ہو کر کہا کہ گائے کا سینگ میں پکڑو ں اور دودھ کوئی اور لے لیں۔ امیرمومنین نے فرمایا کہ وہ تم سے زیادہ اچھامنتظم ہیں ،بہتر نظم و نسق قائم کر سکتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے وجوہات میں ایک وجہ ناقص طرز حکومت تھی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے جاتے جاتے اپنے نافذ کردہ آئین 1962 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار فوجی کمانڈر ان چیف جنرل یحی خان کے حوالے کر دی۔جس نے 1970 میں بالکل صاف شفاف انتخابات کرائے لیکن اقتدار اکثریت کے حوالے نہ کر کے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس کے برعکس ضیاء الحق کی اچانک موت کے بعد 1973 کے آئین کے مطابق سینٹ چیئرمین غلام اسحاق خان مرحوم نے اقتدار سنبھالا اور 90 دن کے اندر عام انتخابات کرائے اور اکثریت پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ اسی طرح جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر چڑھ گئی ۔دونوں حکمرانوں کا موازنہ کیجئے اور خود اندازہ لگائیں ،ایک کے ہاتھ طاقت تھی اور دوسرا تجربہ کار بیوروکریٹ تھا ۔تجربہ کامیاب ہوا۔۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر 1970 کا نقشہ ذہن میں آتا ہے، میرے خیال میں عوامی رائے کے احترام میں ہماری بقا، ترقی اور خوشحالی ہیں۔ اس کے نتیجے میں آنے والے حکمران اگر بہتر کارکردگی دکھا سکیں تو بہتر ورنہ زیادہ دیر ٹھہر نہ سکیں گے۔ ارباب اختیا ر سے میری یہی درخواست ہے کہ خدارا مخلوق خدا پر رحم کیجئے ۔ذاتیات سے نکل کر خدمت کا راستہ اپنائیں۔
پھلا پھُولا رہے یا رب! چمن میری اُمیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بُوٹے مَیں نے پالے ہیں