ہوم << کوئی علاج اس کا بھی اے چارہ گر - سارہ جاوید

کوئی علاج اس کا بھی اے چارہ گر - سارہ جاوید

ایمرجنسی وارڈ مردانہ سسکیوں کی آواز سے گونج رہا تھا. بے چینی اسے مسلسل گھیرے ہوئے تھی. ڈاکٹروں کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملنے پر وہ اور پریشان ہو گیا. اسے لگا کہ دنیا کی ساری مصیبتیں آج یک دم اس پر نازل ہو گئی ہیں. اس پر ہر لمحہ پہاڑ کی مانند بھاری گزر رہا تھا. اسے لگا اس کی ساری محنت رائیگاں چلی گئی ہے. اسے اپنی جانب اندھیرے ہی اندھیرے بڑھتے دکھائی دے رہے تھے. وہ جو اپنے بچوں کو بڑا افسر بنے دیکھنا چاہتا تھا، اسی کے سارے خواب چکنا چور ہونے کو تھے.
محمد فضل حسب معمول بازار میں گول گپوں کی ریڑھی لگائے، اپنے بچوں کے مستقبل کے سنہری خواب دل میں سجائے گاہکوں کا منتظر تھا. اچانک اس کے موبائل فون کی گھنٹی بجی اور فون کان کو لگاتے ہی اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی.
"ابو آپ جلد از جلد سروس ہسپتال پہنچیں. اسامہ کو اچانک پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے. ابھی امی اسے ہمسائیوں کی مدد سے ہسپتال لے کر گئی ہیں." اقرا کہہ رہی تھی.
اس کے ذہن میں صبح ہونے والی گفتگو کے الفاظ گونجنے لگے. دراصل اسامہ کافی دن سے اس سے ناراض تھا کیونکہ وہ اس کی موٹر سائیکل لینے کی فرمائش پر کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہ کر پایا تھا. وہ اسے پیار سے سمجھاتا رہا. مگر آج صبح اس نے فیصلہ کن انداز میں قدرے سخت لہجے میں اسے بتا دیا تھا کہ وہ اپنی محدود آمدنی میں صرف اس کی ضرورتیں ہی پوری کر سکتا ہے، بےجا فرمائشیں نہیں. نہ ہی وہ اولاد کی محبت میں کوئی غلط قدم اٹھا سکتا ہے. لہٰذا وہ اپنے دوستوں کی دیکھا دیکھی اسے تنگ کرنے کے بجائے پڑھائی پر توجہ دے ورنہ وہ اس سے مزید سختی سے پیش آئے گا. اس کے اس لب و لہجے کی بنیاد پچھلے جمعہ کو سنا جانے والا خطبہ تھا جس میں امام صاحب نے بتایا تھا کہ قرآن مجید مال اور اولاد کو فتنہ یعنی آزمائش قرار دیتا ہے. اولاد کی محبت میں اتنا آگے نہ بڑھو کہ ان کی فرمائشیں پوری کرتے جائز و ناجائز کی تمیز کھو بیٹھو. اور شیطان کے نرغے میں آ جاؤ.
انہی سوچوں کی بازگشت میں وہ ہسپتال پہنچا. ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹر کی معاونہ (اٹینڈنٹ) اسامہ کا معدہ واش کرتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی.
"آج کل کی نوجوان نسل کچھ زیادہ ہی حساس ہے. ذرا سی بات پر گولیاں کھانے پر اتر آتے ہیں. پتہ نہیں یہ گولیاں ہر وقت میسر کیسے آ جاتی ہیں."
بے ہوش بیٹے کے زار و قطار روتے باپ نے گولیوں کا لفظ سنا تو اپنی بیوی سے پوچھا،
"یہ کیا کہہ رہی ہے؟ اسامہ کی طبیعت کیسے خراب ہوئی؟"
بیوی نے بتایا، "جب میں اور اقرا چھت پر بنے سٹور میں کسی کام سے گئے تو یہ فرش پر عجیب طریقے سے آڑا ترچھا پڑا تھا اور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی. پاس ہی چوہے مار گولیوں کی شیشی پڑی تھی جو مجھے نہیں پتہ یہ کہاں سے لایا تھا."
" اوہ! تو یہ اس نے موٹر سائیکل سے انکار کیے جانے کی بنا پر جان بوجھ کر کیا ہے. اوہ خدایا! یہ مجھے پریشان کرنے کے بجائے میری مدد کرنے، میرے مسائل کو سمجھنے اور ہاتھ بٹانے کا کیوں نہیں سوچتا؟"
مگر اس وقت تو بیٹے کی حالت اس کے لیے سخت تشویش کا باعث تھی. وہ بار بار معاونہ سے پوچھتا کہ بچ جائے گا نا؟
وہ بدتمیزی سے جھڑک دیتی اور خاموش ہونے کو کہہ دیتی.
اتنے میں ایک باریش پروفیسر صاحب طلبہ کے گروپ کے ساتھ وارڈ میں داخل ہوئے اور اپنے طلبہ کو معدہ واش کرنے کا طریقہ کار دکھانے کے لیے آسی بیڈ پر لے آئے. روتے ہوئے باپ کو بیٹے کی حالت خطرے سے باہر ہونے کا یقین دلا کر انہوں نے اس کے خود کشی کرنے کی وجہ دریافت کی تو محمد فضل نے اپنا دل ان کے سامنے کھول دیا.
"میں ان کی خاطر دو دو کام کرتا ہوں. صبح گھروں میں دودھ سپلائی کرتا ہوں اور دوپہر سے شام تک گول گپوں کی ریڑھی لگاتا ہوں. میری اپنی سائیکل ٹوٹی ہوئی ہے مگر میں نے کمیٹی ڈال کر اسے میٹرک کرنے پر نئی سائیکل لے کر دی. اب اس کا مطالبہ موٹر سائیکل کا ہے. جو میری اوقات سب بڑھ کر ہے."
پروفیسر صاحب نے توجہ سے بات سنی اور پھر ان کے جواب نے آس پاس موجود سب لوگوں کو حیران کر دیا. وہ بولے،
"تم ایسا کرو اس کی شادی کر دو. جب اس کے اپنے سارے بچے موٹر سائیکل مانگیں گے نا تو اسے پتہ چلے گا کہ باپ بننا کیا ہوتا ہے. چودہ طبق روشن ہو جائیں گے صاحب زادے کے. پیسے کمانے والی مشین سمجھ رکھا ہے باپ کو. بس اس کا یہی علاج ہے."
قارئین! آپ اس علاج سے کہاں تک اتفاق کرتے ہیں؟؟ یا پریشان حال باپ کے لیے کوئی اور علاج ہے آپ کے پاس؟؟

Comments

Click here to post a comment

  • سارہ ڈیئر، مجھے تو اسامہ بہت جذباتی سا لڑکا لگا ہے، دوسروں کے احساسات تک سمجھنے سے قاصر ہے، اگر ابھی اس کی شادی کر دی جائے تو مزید لوگوں کے لیے اپنی نا سمجھی کی وجہ سے مسائل کھڑے کرے گا.
    میرے خیال میں سر نے جو کچھ کہا وہ صرف اس لیے کہ اسامہ کو احساس دلائے جانے کی ضرورت ہے. وہ خود کو اپنے ابو کی جگہ رکھ کر سوچے تو اسے ضرور اپنی غلطی کا احساس ہو گا. اس کی امی کو بھی چاہیے کہ اسے نرمی سے سمجھائیں.
    اور ہاں، ایسے بہت سے طریقے ہیں جن کی مدد سے سکول جانے بچے والے اپنے والدین کی زیر نگرانی اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنی پاکٹ منی یا چھوٹے بڑے شوق پورے کرنے کے لیے خود بھی کما سکتے ہیں.
    میں ان شاء اللہ جلد اس پر لکھوں گی.