ہوم << ریپر کس نے پھینکا؟ حنا نرجس

ریپر کس نے پھینکا؟ حنا نرجس

مس آمنہ کو اس سکول میں آئے تقریباً دو ہفتے ہو چلے تھے. باقی سب تو ٹھیک تھا، سکول کا نظم و ضبط بھی مثالی تھا لیکن ایک چیز ان کو بہت پریشان کر رہی تھی. صبح اسمبلی سے قبل جب وہ صفائی کرنے والی ورکرز کو بچوں کو ڈانٹتے، ان کے پیچھے بھاگتے اور برا بھلا کہتے دیکھتیں تو بہت عجیب سا محسوس ہوتا. بچے تھے بھی تو بہت لا پرواہ اور شرارتی. منع کرنے کے باوجود کاغذ، ریپرز اور پنسل کا کچرا وغیرہ گراؤنڈ، سیڑھیوں اور کمرہ جماعت میں پھینک کر ان کو شکایت کا موقع دیتے.
اسمبلی کے بعد بچے کمروں میں چلے جاتے اور ورکرز ایک بار پھر صفائی کر کے بریک تک کے لیے مطمئن ہو جاتیں. بریک کی گھنٹی بجتی تو بچے یوں باہر لپکتے جیسے کسی قید سے آزاد ہوئے ہوں. دونوں کینٹینز اور کیفے پر بے پناہ رش ہو جاتا. گراؤنڈ، سیڑھیوں اور ہر منزل کی راہداریوں پر جا بجا بسکٹ، چپس، ٹافیوں کے ریپرز، جوس کے خالی ڈبے، سموسے اور برگر والے چکنے لفافے حتی کہ کولڈ ڈرنک کی خالی یا آدھی پی ہوئی بوتلیں پڑی ملتیں. یہ منظر مس آمنہ کو بہت تکلیف دیتا کیونکہ صفائی کو تو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے. وہ کئی بار اپنے لنچ اور چائے سے جلدی فارغ ہو کر گراؤنڈ میں جا کر بچوں کو سمجھانے کی کوشش کر چکی تھیں مگر اس مختصر سے دورانیے میں بچوں کو کھانے پینے کے ساتھ ساتھ کرکٹ اور بیڈ منٹن کھیلنے کی بھی جلدی ہوتی اس لیے وہ کسی کی بات سننے پر آمادہ نظر نہ آتے.
بہت سوچ بچار کے بعد مس آمنہ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی. اگلے دن انہوں نے حاضری لگانے کے بعد ہی بچوں کو آگاہ کر دیا کہ آج بریک کے بعد ہونے والے پیریڈ میں مجھے آپ سے کچھ خاص بات کرنی ہے. جب حسب وعدہ بات کا آغاز ہوا تو بچوں کا تجسس آخری حدوں کو چھو رہا تھا. مس آمنہ نے صفائی کے متعلق بات کی. بچوں نے کچھ خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا. کچھ کو تو سخت مایوسی ہوئی. مختلف رد عمل سامنے آئے.
"نہیں ٹیچر، ہم گندے بچے ہی ٹھیک ہیں."
"اتنی چھوٹی سی تو بریک ہوتی ہے ہمیں آپ سے کیے گیے وعدے کے متعلق یاد ہی نہیں رہے گا."
"نہیں، ہمیں آپ کا آئیڈیا بالکل پسند نہیں آیا." "کون ریپرز پھینکنے ڈسٹ بن تک جائے، ہمیں یہ پابندی منظور نہیں."
"ٹیچر، ورکرز بریک کے بعد صفائی کر تو لیتی ہیں. آخر ان کو بھی تو اپنی تنخواہ حلال کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے." یہ رائے شرارتی عبیرہ کی تھی.
"ہوں... ٹھیک ہے... یہ پلان آپ کو پسند نہیں آیا... آسے چھوڑ دیتے ہیں... ہم ایک آسان سا کام کرتے ہیں... وہ یہ کہ... کہ... میں روزانہ آپ سے ایک سوال پوچھوں گی... کرنا صرف یہ ہے کہ آپ نے اس کا جواب سچ سچ دینا ہے."
"بس اتنا سا کام! سوال کیا ہو گا؟"
"یہ تو کل پتہ چلے گا نا جب سوال پوچھا جائے گا، وہ بھی بریک کے بعد والے پیریڈ میں."
اگلے دن جب سوال پوچھا گیا، بچوں کے ہاتھ کھڑے مگر چہرے شرمندگی کے مارے جھکے ہوئے تھے. سوال سادہ سا تھا، "آج جس جس بچے نے بریک میں ریپرز ادھر ادھر پھینکے، وہ ہاتھ کھڑا کرے."
تین کے سوا سب کے ہاتھ کھڑے تھے.
"آپ تینوں نے ریپرز کیوں نہیں پھینکے؟" مس آمنہ شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ رافعہ، حمنہ اور آسیہ سے مخاطب تھیں.
"میں نے تو گھر سے لایا ہوا لنچ کلاس میں بیٹھ کر ہی کیا ہے."
"میرے سر میں درد تھا، میں کلاس سے باہر گئی ہی نہیں."
"اور آسیہ آپ؟"
"میں نے راحیلہ کے ساتھ مل کر برگر خریدا تھا، آخر میں لفافہ اس کے ہاتھ میں تھا. اسی نے پھینکا ہو گا، میں نے تو نہیں."
"ٹھیک ہے آپ سب ہاتھ نیچے کر لیں. مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے سچ بولنے کا وعدہ پورا کیا. روزانہ سچ ہی بولیے گا، یہ سوال میں کرتی رہوں گی."
اب مس آمنہ کا منصوبہ بچوں کی سمجھ میں کچھ کچھ آ چکا تھا. ٹھیک ہے سچ ہی بولنا ہے نا، ریپرز پھینکنے پر تو کوئی پابندی نہیں.
اگلے دنوں میں بتدریج کھڑے ہونے والے ہاتھوں میں کمی آتی گئی. اب جواب کچھ یوں ہوتا.
"ٹیچر میں ریپر پھینکنے ہی والی تھی مگر میں نے سوچا روزانہ میرا ہاتھ کھڑا ہوتا ہے، آج نہیں ہونا چاہیے."
لیکن پھر بھی کچھ بچوں کو سدھرنے میں وقت لگتا ہے. جیسے کل ہی ضحی کہہ رہی تھی، "ٹیچر، میں تو اب اچھی بچی بن گئی ہوں مگر پتہ ہے سارا نے آج کیا کیا؟ اس نے پیپسی کی بوتل فرسٹ فلور پر سے گراؤنڈ میں کھڑی ایک لڑکی پر انڈیل دی. فرش بھی گندا ہوا اور اس لڑکی کے بال اور کپڑے بھی."
اور آج عالیہ کا موڈ آف تھا کیونکہ اس کی دوست نے ریپر نیچے پھینکنے کی بجائے عالیہ کے بستے میں ڈال دیا تھا. ساری چکنائی اس کی کتابوں پر لگ گئی تھی. دونوں بچیاں اپنی غلطی تسلیم کر چکی تھیں. مس آمنہ نے ان کو شاباش دی، پیار سے سمجھایا اور آئندہ بھی سچ پر ہی کاربند رہنے کو کہا.
اب بچے ریپرز پھینکنے کی عادت پر بہت حد تک قابو پا چکے تھے. اگلا ٹاسک اپنے ریپر کے ساتھ ساتھ پانچ مزید ریپرز اٹھانے اور دوسرے بچوں کو بھی صفائی کی اہمیت سے آگاہ کرنے کا دیا گیا. دن گزرتے گئے. مثبت تبدیلی آتی چلی گئی. اب مس آمنہ صفائی کے معاملے میں گھروں پر بچوں کے رویوں پر کام کر رہی تھیں.
سب سے زیادہ خوشگوار تبدیلی ورکرز کے بچوں کے ساتھ سلوک میں آئی تھی. مس آمنہ نے ہی سمجھایا تھا کہ صبح ہمارے سکول آنے سے بہت پہلے ہمارے کچھ محسن سکول پہنچتے ہیں. بابا گلزار نماز فجر کے فورا بعد سب تالے کھولتے ہیں. اماں سلامتے سکول کے سامنے سڑک کی صفائی کرتی ہیں. کچھ ورکرز مین گیٹ، باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکیوں اور نوٹس بورڈ وغیرہ کو صاف کرتے ہیں، سڑک پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں تاکہ دھول نہ اڑے. بہت سی ورکرز اپنے یونیفارم کے لفافے تھامے علی الصبح جلدی جلدی سکول پہنچتی ہیں تا کہ آپ کے آنے سے پہلے آپ کے کمرہ جماعت، کرسیوں اور میزوں کو صاف کر سکیں. یہ سب لوگ کام کے بعد ہی کپڑے تبدیل کر کے یونیفارم پہنتے ہیں. ان سب کی انتھک محنت سے آپ کو صاف ستھرا ماحول میسر آتا ہے. آپ ہی بتائیے ان کی محنت کو سراہنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟
"کہ ہم گند نہ مچائیں"
"جی بالکل اور اس طرح آپ کو ان کے سخت رویے سے جو شکایات ہیں وہ خود بخود ختم ہو جائیں گی."
اس صفائی مہم کی شہرت جلد ہی ساتویں جماعت کے دوسرے فریقوں سے ہوتے ہوئے باقی جماعتوں تک بھی پہنچ چکی تھی. پرنسپل صاحبہ بھی ان سب سرگرمیوں سے بخوبی آگاہ تھیں. انہوں نے مس آمنہ اور ان کی ٹیم کی کوششوں کو اسمبلی میں بطور خاص سراہا اور ان بچوں کے ذمے لگایا کہ وہ اپنی ٹیچر کی اجازت سے روزانہ دو تین جماعتوں کا وزٹ کر کے انہیں بھی یہ بات سمجھاتے ہوئے اپنی مہم کا حصہ بنائیں. شہرت اور پہچان کسے اچھی نہیں لگتی. اچھی عادات کے ساتھ ساتھ یہ دونوں چیزیں بھی بچوں کو بطور انعام مل گئی تھیں. ایک سادہ سے سوال، "ریپر کس نے پھینکا؟" سے شروع ہونے والے عمل کے اثرات بہت خوشگوار اور دور رس تھے.

Comments

Click here to post a comment

  • بہت اچھی تحریر میرے بچے کاغز بہت پھاڑتے اور پھینکتے ہیں ...آج ہی سے کوشش شروع کروں گی دعا کرہے گا کامیاب ہو جاؤں