ہوم << چڑھتا سورج کے خالق ابوالفضل صدیقی - محمد فیصل شہزاد

چڑھتا سورج کے خالق ابوالفضل صدیقی - محمد فیصل شہزاد

ایک گھنٹہ ہونے کو آیا تھا لیکن ان کے گھر کا کوئی سراغ مل کے ہی نہیں دے رہا تھا۔ دو ہفتے پہلے جب ایک پرانے سالخوردہ ادبی رسالے میں اُن کے بارے میں یہ پڑھا کہ پاکستان ہجرت کے بعد وہ ناظم آباد نمبر 4 کے ایک مکان میں رہائش پذیر ہوئے تھے تو انوکھی مسرت کا احساس ہوا۔ یعنی جس سحرکار کے سحر میں ہم پچھلے پندرہ سال سے گرفتار تھے، وہ تو ہمارے گھر کے آس پاس ہی کسی گھر میں رہتے رہے ہیں! معلوم ہوا تھا کہ 1987ء میں ان کے انتقال پر ناظم آباد نمبر 4 کی ایک چھوٹی سی ذیلی سڑک ان کے نام سے موسوم کی گئی تھی، لیکن لوگ جانتے ہی نہیں تھے کہ ان کا گھر کون سا تھا، اور اب ہے بھی کہ نہیں! گھر تو دور کی بات، اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ان کے نام تک سے بھی واقف نہ تھے کہ یہ شخص کون تھا جن کے نام سے ان کے گھر کی سڑک موسوم ہے! کسی کا بھی کیا قصور، 1987ء میں جب ان کا انتقال ہوا اور یہیں آس پاس کسی مکان سے ان کا جنازہ اٹھا (پاپوش کا قبرستان ان کا مدفن بنا) تو اس وقت ہم خود فقط نو سال کے تھے اور ٹارزن اور عمروعیار کے جادوئی قصوں سے دل بہلاتے تھے، اتنے عرصے میں پوری ایک نسل جوان ہو کر ادھیڑ عمری کی طرف بڑھ گئی اور کیسی نسل؟ پاپ میوزک اور موبائل کی نسل! جنھیں فنونِ لطیفہ میں صرف اداکاروں اور گلوکاروں کی پہچان ہو، ادب کے شناوروں کو بھلا وہ کیا جانیں گے!
خیر ان گلیوں میں ہم اس گھر کو کھوجتے رہے جہاں اردو ادب میں اپنی طرز کے ایک منفرد اور صاحبِ اسلوب افسانہ نگار برسوں اپنے افسانوں، ناولٹوں اور ناولوں سے ادب کے دامن کو مالامال کرتے رہے، پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے یعنی جب تھک کر ہم نے کسی اور دن پر اس کام کو موقوف کرنے کو سوچا تو مقصود مل گیا۔ جی ہاں سامنے والے گھر کی نیم پلیٹ پر نظر پڑی تو ’بیت القدسی‘ لکھا نظر آیا۔ بیت القدسی سے ہمارا ذہن قدسیہ بیگم کی طرف منتقل ہوا جنھیں’وہ‘ پیار سے قدسی بیگم کہا کرتے تھے۔ ساتھ ہی لکھا تھا’ شاہد حسن صدیقی‘ یہ ان کے بڑے بیٹے کا نام تھا۔ اتفاق سے اس گھر کے پڑوس میں ہمارے ایک کرم فرما سلیم قریشی بھائی تھے، ان سے مل کر ہمیں یقین ہو گیا کہ یہی’ ان‘ کا گھر تھا۔
ابوالفضل صدیقی 5 ستمبر 1908ء کو بدایوں کے مضافات میں واقع ایک بستی ’عارف پور نوادہ‘ میں ابوالحسن صدیقی کے گھر پیدا ہوئے۔ یہ بستی آپ ہی کے ایک بزرگ عارف صدیقی کی آباد کی ہوئی تھی۔ وہ ایک جدی پشتی زمیندار تھے اور نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ. یہی وجہ ہے کہ انھوں نے زراعت اور خصوصاً آموں پر نت نئے تجربات کیے اور بعد میں انھی تجربات نے اردو ادب کو ایک نئی جہت سے مالامال کیا۔ آموں سے عشق کے علاوہ انھیں جانوروں اور خصوصاً گھوڑوں سے دیوانگی کی حد تک تعلق تھا۔ وہ صرف گھڑ سواری تک محدود نہ رہے بلکہ انھوں نے گھوڑوں کے عیوب و محاسن سے متعلق اتنی نایاب اور مفصل معلومات حاصل کر لیں کہ چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا بن گئے۔ شکار، زراعت، باغات اور جانوروں کا باریک بینی سے مشاہدہ، غرض جنگل اور دیہات سے متعلق ان کا سارا علم کتابِ فطرت سے براہِ راست اکتساب کا نتیجہ تھا جو پھر ان کے لازوال افسانوں میں جھلکا اور ایک زمانے کو اپنا معترف بنا لیا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ 1945ءمیں شائع ہوا۔ اس کے بعد ایک کے بعد ایک ان کی لازوال کہانیاں آتی گئیں۔ ان کے موضوع بہت منفرد تھے۔ دیہات، وہاں کے تمام طبقات، کسان، کھیت، مزدور، مہاجن، جاگیرداروں اور ان کے کارندوں، دیہاتیوں کے مسائل اور ان کی نفسیات، پھر جنگل، نباتات، جانوروں، چرند پرند، درند، ان کی عادات و خصائل، جبلت اور انسان سے ان کے باہمی رشتوں کو جس طرح انہوں نے لکھا، وہ بلاشبہ اردو ادب کے سرمائے میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد ذخیرہ ہے۔
ان کی جس کہانی سے ہم ان کے نام آشنا ہوئے، وہ ’چڑھتا سورج‘ تھی۔ یہ کہانی بلاشبہ دنیا کی عظیم کہانیوں کے مقابل پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک گھوڑا ہے۔ اس کہانی میں انھوں نے گھوڑے کو بطور استعارہ کرتے ہوئے ہندوستان کی تحریک آزادی اور عوامی قوتوں کی فتح کو مستقبل کا استعارہ بنا دیا ہے۔ اس کہانی کی بُنت میں انھوں نے سماجی بیداری اور استحصالی قوتوں کی نشان دہی اتنی چابکدستی سے کی ہے کہ قاری ایک لمحے کے لیے بھی بور نہیں ہوتا۔ اس میں انھوں نے گھوڑوں کی اقسام، اس کی خصوصیات اور اس کی پرداخت دکھانے میں اتنی ہنرمندی سے کام لیا ہے کہ اس موضوع پر اردو افسانے میں اس کے مقابل اور کوئی تحریر نہیں پیش کی جا سکتی۔ کہانی کا کلائمکس اتنا پراثر ہے کہ کوئی بھی حساس دل اسے روانی سے نہیں پڑھ سکتا۔ ہمیں آج بھی یاد ہے کہ جب ہم اس موڑ پر پہنچے جب میاں بچّہ (گھوڑے کا نام) اپنی مخصوص ہنہناہٹ کے ساتھ مقابلے کے لیے آتا ہے اور جب دوڑ شروع ہوتی ہے تو ہمیں بار بار رک کر اپنے دل کو سنبھالنا پڑا۔ گھوڑے کے ساتھ ہمارے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جا رہی تھی، پھر ایک موقع تو ایسا آیا کہ بےاختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ یہی تو اچھے ادب کی شناخت ہے۔ اچھی کہانی اپنے اسلوب اور تاثر سے ہی پہچانی جاتی ہے۔
ان کی ایک اور کہانی ’خونی‘ پڑھیے۔اس کہانی کا مرکزی کردار بھی ایک جانور، ایک وحشی اور خونی جانور‘ ہاتھی ہے۔ یہ کہانی محض تخیل نہیں بلکہ ریاست رام پور کے جنگلوں کے ایک سچے واقعہ سے ماخوذ ہے، جسے صدیقی صاحب کے قلم نے ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید کر دیا۔ ’خونی‘ میں انھوں نے وحشی ہاتھی کی بے پناہ قوت اور جبلت کا اور ساتھ ہی ایک ہتھنی سے محبت کا جو دلفریب نقشہ کھینچا ہے، اس سے جہاں قاری بیک وقت نفرت اور ہمدردی کے متضاد جذبات کے درمیان گھرا رہتا ہے، وہیں پڑھتے ہوئے جنگل اپنی پوری ہیبت ناکی کے ساتھ اس قاری کے تصور میں آجاتا ہے جس نے کبھی جنگل نہیں دیکھا۔ کئی بار دہشت سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور سطر سطر دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس افسانے کو پڑھتے ہوئے بےاختیار صدیقی صاحب کے پیش رو سید رفیق حسین یاد آ جاتے ہیں، یا پھر اسی کی دہائی کے قاضی عبدالستار اور سید محمد اشرف جن کے موضوعات بھی عموماً جنگل اور جانور ہوا کرتے تھے۔
افسانہ’ گلاب خاص‘ اور پھر اسی موضوع پر نقوش صدارتی ایوارڈ یافتہ ناولٹ’ گل زمین کی تلاش میں‘ بھی ان کی وہ کہانیاں ہیں جن پر بلامبالغہ اردو ادب دنیا کی کسی بھی دوسری زبان کے ادب پر فخر کر سکتا ہے۔ان دونوں تخلیقات میں انھوں نے اپنی اعلیٰ ترین جمالیاتی حسیات کاشاندار مظاہرہ کیا ہے۔ کس کس تحریر کا ذکر کیا جائے۔ ترنگ، میراث، دفینہ، بھیا دیوج، بھورا چلیے، انصاف، الارض اللہ اور نیل گائے، سب موضوع، اسلوب اور دلچسپی کے اعتبار سے ایک سے ایک، اور جہاں تک زبان وبیان کی بات ہے، ابوالفضل صدیقی مرحوم کی نثر کا سلسلہ نسب دبستانِ اودھ کا سلسلہ زریں ہے۔ افسوس صد افسوس ہم نے اتنے بڑے ادیب کو بھلا دیا، انھیں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حقدار تھے۔
کوئی تین ہفتے پہلے جب میں اردو بازار گیا جے کانتن اور صدیقی صاحب کے افسانوں کا مجموعہ ڈھونڈنے تو ایک بڑا دھچکا لگا، جے کانتن تو چلیے ہندوستان کا تامل زبان کا ادیب، کوئی نہیں جانتا لیکن آٹھ دس بڑی دکانداروں نے جب ابوالفضل صدیقی کا نام پہچاننے سے بھی انکار کر دیا تو دلی رنج ہوا۔ آخر ایک دکاندار نے نہ صرف پہچانا بلکہ ان کے پاس حضرت کے ایک دو مجموعے’ شہرزاد ‘ کے شائع کردہ ملے۔ اس دن معلوم ہوا کہ کچھ نئے لکھاریوں یا پرانوں میں مشہورچند ناموں کے علاوہ کتنے ہمارے ادیب ہیں، جن کو نئی نسل جانتی بھی نہیں ہے!

ہمارے ایک اور پسندیدہ لکھاری قاضی عبدالستار صاحب تو زیادہ پرانی بات نہیں ہوئی، ان کے افسانوں کے مجموعے بھی نہیں ملے۔ بس یہی رنج اس مضمون کے لکھنے کا محرک بنا۔ یہی خیال آتا ہے کہ آج ہمارے اردو کے نام لیوا بھیڑ چال کا شکار ہیں، کچھ خوش قسمت ادیب جو مقبول ہو گئے، مقبول ہو گئے. بس اب انھی کا کام اور انھی کی باتیں ہیں، بے شک وہ بھی بہت بڑے ادیب ہیں، لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ یہاں کیسے کیسے جگمگاتے جوہر تھے جو خود تو مٹی اوڑھ کر سو رہے لیکن ان کا کام بھی ابھی تک گمنامی میں ہے۔ ان کے کام پر کوئی تحقیق نہیں کرتا.

ان کے والد محترم ابوالحسن صدیقی نے اپنے قابل بیٹے کے متعلق یہ شعر کہا تھا ؎
حو ہے فطرت میں وہ، فطرت بھی اس میں محو ہے
رازِ فطرت کے سمجھنے میں اسے کب سہو ہے
وہ ساری زندگی فطرت کو ہی افسانوں میں پینٹ کرتے رہے۔

Comments

Click here to post a comment