ہوم << طیب اردگان کا صدارتی محل - زبیرمنصوری

طیب اردگان کا صدارتی محل - زبیرمنصوری

”جامعہ مسجد دمشق میں جڑے ہیرے جواہرات اتار کر بیت المال میں جمع کروا دیے جائیں.“
درویش منش پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا حکم سن کر بیوروکریسی پریشان تھی. پچھلے خلیفہ نے یہ انمول ہیرے مسجد میں جڑوائے تھے اور اب حضرت عمر انھیں اتارنے کا حکم دے رہے تھے. ان کی نظر میں یہ اسراف اور فضول خرچی تھی، مسجد میں بھلا ہیروں کی کیا جگہ؟
ابھی ہیروں کو مہارت اور صفائی سے اتارنے کی پلاننگ جاری تھی کہ ایک عیسائی سلطنت کا ایک سیاسی وفد خلیفہ سے ملنے آن پہنچا. انھیں دیگر مقامات کے علاوہ مسجد کا وزٹ بھی کروایا گیا، وہ عبادت گاہ میں ہیرے دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے. انھوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا اور بولے
”جو قوم اپنی عبادت گاہوں کو بھی ہیرے جواہرات سے مرصع رکھتی ہے اسے بھلا کون شکست دے سکتا ہے.“
وہ مسلمانوں کی قوت و شوکت وسائل کی فراوانی اور طاقت سے نہایت مرعوب ہو چکے تھے. یہ بات جب حضرت عمر تک پہنچی تو انھوں نے جواہرات اتارنے کا حکم منسوخ کر دیا. وہ جانتے تھے کہ طاقت مرعوب کر دینے کا نام ہے اور دمشق کی مسجد دشمن کے دل میں مسلمانوں کی قوت اور وسائل کی کثرت کا رعب بٹھاتی ہے تو پھر ہیرے اور کس کام کے ہیں؟
میرے اردگان کا وائٹ ہاؤس سے بڑا محل اسی نیت سے بنایا گیا ہے اور اعلانیہ طور پر کہہ کر، بتا کر، اعلان کر کے بنایا گیا ہے کہ اس کا مقصد عظیم عثمانی خلافت کا احیا ہے. قوموں کے لیے کروڑوں اربوں کی اہمیت نہیں ہو تی، حمیت اور غیرت اور عالمی برادری میں شان و شوکت کی اہمیت ہوتی ہے. تکبر اور اکڑ کر چلنا اللہ کو پسند نہیں مگر عین طواف کعبہ کے دوران اکڑ کر سینہ پھلا کر چلنے کا حکم اللہ کے رسول کو خود اللہ نے دیا تا کہ دشمن مرعوب ہو، اس کی ہمت ٹوٹ جائے، وہ چھوٹا بن کر رہے، اس لیے کہ عزت تو بس اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے.
اکڑنا بری بات مگر واہگہ بارڈر سے لے کر ہر جگہ جہاں ہمارے فوجی دشمن کے سامنے اکڑتے اور سینہ پھلاتے ہیں تو قوم کا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے. سوائے ان لوگوں کے کہ جن کا معاملہ یہ ہے
”حمیت نام تھا جس کاگئی تیمور کے گھر سے“
پیارے اردگان !
عثمانی خلافت، اسلام کی شان و شوکت کی ہر علامت، امید حوصلہ، امنگ کامیابی کے ہر استعارہ کو آگے بڑھاؤ. تم نے پہلے اپنی قوم کا پیٹ بھرا ہے، اب ان کی عزت و شرف کے تقاضے پورے کرو، خوب خرچ کرو، یہی نہیں جشن فتح قسطنطنیہ مناؤ بلکہ ماضی کی ہر کامیابی کو نئے جذبے سے منانا شرع کرو. دیکھو دل شکستہ، پریشان اور مایوس امت کو جوش، حوصلہ، ولولے اور کامیابی کی امنگ دینے کی ضرورت ہے.
آگے بڑھو مگر بس ذرا احتیاط سے غیر ضروری دشمن پیدا کیے بغیر کیونکہ
”دوست ہزار بھی کم، دشمن ایک بھی زیادہ“
ہم سب تمھارے ساتھ ہیں
میرے اردگان! میرے پیارے اردگان!
تم ہو اک زندہ جاوید و روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جائو گے

Comments

Click here to post a comment

  • Assalamu Alaikum
    Khilafat ke Established ke liye Kya planing hai???
    Aap to Democracy ki baat karte hai...
    aap Khilafat chahte hai ya Democracy???