ہوم << کہاں جا رہے ہو؟ عثمان اعوان

کہاں جا رہے ہو؟ عثمان اعوان

عثمان اعوان کہاں جا رہے ہو؟
یہ الفاظ اماں جی کے تھے، جب میں ایک گرم دوپہر میں انھیں اپنی چارپائی پر سوتا ہوا سمجھ کر اور ان سے چھپ کر اپنے جگری یار کے ساتھ کھیلنے جا رہا تھا. اماں جی کی آواز سن کر مجھے ایسا لگا کہ اب نہیں جا سکوں گا کہ کوئی ماں اپنے لعل کو اس کڑکتی دھوپ میں کھیلنے کی اجازت نہیں دیتی. لیکن میرے شریر دماغ میں ایک آئیڈیا آیا اور جھٹ سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا 'اماں جی میری ایک کاپی دوست کے پاس ہے، وہ لینے میں جا رہا ہوں'. . اماں جی نے پیار سے کہا بیٹاسائے سائے سے جانا، باہر بہت گرمی ہے. اپنے اس پہلے جھوٹ پر پشیمان ہونے کے بجائے میں بہت خوش ہوا اور جا کر کھیل میں مگن ہو گیا. اس کے بعد ہر دفعہ ماں کے اس سوال پر کہ کہاں جارہے ہو؟ کے جواب میں کوئی نہ کوئی تگڑا سا بہانہ بناتا اور سیدھی سادی اماں جی اسے نہ صرف سچ سمجھتیں بلکہ دعائیں بھی دیتیں. سچ پوچھیے تو ماں کی دعائیں ہی تو ہیں جو مجھ ناچیز سمیت ہر ماں والے کا کل اثاثہ ہوتی ہیں. . آہ کہ اب وہ دعا کرنے والے لب خاموش ہوگئے ہیں.
ایک دن دوستوں نے مل کر بیرون شہر گھومنے کی غرض سے چند ایام گزارنے کا پروگرام بنایا. تیاری کرتے ہوئے ایک بیگ میں کپڑے اور دیگر ضروری سامان پیک کر رہا تھا کہ ایک مرتبہ پھر میرے کانو ں نے وہی سوال سنا کہاں جا رہے ہو؟ اس مرتبہ یہ سوال اماں جی کے بجائے ابا جی نے کیا تھا. مڑ کر ان کے وجیہ چہرے کی جانب دیکھا تو رعب کی وجہ سے منہ سے الفاظ نے نکلنے سے انکار کر دیا اور میں خاموش کھڑا رہا. ایک مرتبہ پھر گرج دار آواز میں انہوں نے اپنے سوال کو دہرایا. میں پوچھ رہا ہوں کہاں جا رہے ہو؟ اس مرتبہ میں نے اپنے حواس بحال کیے اور حسب عادت جھوٹ کا سہارا لیا کہ آفس کے کام سے چند دنوں کے لیے لاہور جا رہا ہوں. یہ کہ کر ان کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ غصے کی جگہ اب پدرانہ شفقت نے لے لی ہے. کہنے لگے'بیٹا اپنا خیال رکھنا، اجنبی شہر ہے، پہلی مرتبہ جا رہے ہو، مجھے تشویش رہے گی، وقتاًفوقتاً کال کر کے اپنی خیریت سے آگاہ کرتے رہنا، اور ہاں یہ کچھ پیسے رکھ لو سفر میں کام آئیں گے. فرمانبردار بیٹے کی طرح سر جھکا کر ان کی نصیحتیں سنیں اور ہاں میں سر ہلایا. ابا جی سے اجازت اور پیسے لے کر مال غنیمت سمیٹنے والے کسی فاتح کی طرح گھر سے نکلا اور دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹے کرنے چلا گیا.
زندگی کی گاڑی یوں ہی چلتی رہی. اماں جی کی دعائیں، ابا جی کی دولت اور شفقت ساتھ ساتھ رہیں تو شاداں و فرحاں زندگی گزرتی رہی. مشکل، آزمائش، تکلیف اور پریشانی کے الفاظ سے تو واقفیت رہی مگر یہ ہوتی کیا ہیں؟ اس کے بارے میں معلوم نہیں تھا. ہاں ایک سوال نے کبھی پیچھا نہیں چھوڑا کہ کہاں جا رہے ہو؟ گھر میں اماں جی اور ابا جی یہ سوال کرتے، اسکول میں استاد اور عملی زندگی میں آفس میں باس. کبھی چاہتا تو سچ بول دیتا کہ فلاں کام کے سلسلے میں فلاں جگہ جا رہا ہوں مگر سچ اسی وقت ہی زباں پر آتا جب یہ یقین ہوتا کہ سچ ارادے اور جانے میں رکاوٹ نہیں بنے گا. اگر ذرا برابر بھی اس کا احتمال ہوتا تو جیسا کہ بتا چکا ہوں، تب بہانے سے کام لیتا یعنی کہ جھوٹ
مگر اس دن حد ہو گئی جب یہی سوال بیگم نے اس وقت پوچھا، جب آفس ٹائم کے بعد ایک ضروری کام کے سلسلے میں کسی سے ملنے جانا تھا، اورگھر کال کر کے بتایا کہ آج رات کھانے میں انتظار مت کرنا، دیر سے آئوں گا، ضروری کام سے کہیں جانا ہے. سوال ہوا کہ کہاں جا رہے ہو؟ بس یہ سننا تھا کہ میں کسی خودکش کی طرح پھٹ گیا اور گرجتے ہوئے کہا تم کون ہوتی ہو مجھ سے یہ سوال کرنے والی؟ تم میری ماں نہ بنو، میری مرضی جہاں جائوں، اور کسی کو مجھ سے پوچھنے کا حق نہیں. یہ کہ کر کال کاٹ دی.
لیکن.
رات جب کام نپٹا کر گھر داخل ہوا تو کوئی کہہ رہا تھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں ہکا بکا رہ گیا کیونکہ اس مرتبہ یہ سوال مجھ سے میرے رازدار نے کیا تھا. وہ جو ہر اس جگہ میرے ساتھ تھا جہاں جہاں میں گیا.
دراصل
کام سے فارغ ہو کر جب میں گھر آیا تو بیگم کو قرآن کی تلاوت میں مشغول پایا, وہ اپنی خوبصورت آواز میں آخری پارے کی سورۃ التکویر کی تلاوت کر رہی تھی. جب اس
نے ان آیات کی تلاوت کی
فاین تذھبون کہ پھر تم لوگ کدھرچلے جا رہے ہو
ان ھو الا ذکراللعالمین کہ یہ تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے
یہ سننا تھا کہ میں اس بات کو سمجھ گیا کہ جب میرا اللہ یہ سوال کر رہا ہے جو میرا رازدار بھی ہے تو یہ سوال نہیں ہے بلکہ
.تنبیہ ہے
توجہ ہے
پیار ہے
اور جو میرے پیارے ساری زندگی مجھ سے یہ سوال کرتے رہے کہ کہاں جا رہے ہو؟ وہ بھی دراصل مجھے صحیح راہوں کا راہی بنا چار ہے تھے. وہ مجھے غلط راستوں میں بھٹکنے سے بچانا چاہ رہے تھے اور میرا اللہ جو مجھ سے ستر ماؤ ں سے زیادہ محبت کرتا ہے، اگر چہ اس نے دو راستے دکھائے اور مجھے اختیار دیا کہ میری مرضی کہ میں جس راستے کو چاہوں اختیار کروں، مگر میرا اللہ بار بار پیار سے ہم سب سے پوچھ رہا ہے کہ کہاں جارہے ہو ؟

Comments

Click here to post a comment