ہوم << گریٹ گیم اور افغانستان،قسط ہفتم-لکیریں جو نفرت کا بیج بوتی رہیں-شبیر احمد

گریٹ گیم اور افغانستان،قسط ہفتم-لکیریں جو نفرت کا بیج بوتی رہیں-شبیر احمد

افغانستان کےسرحدی تعین کے فیصلے عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کیے جارہے تھے۔ اغیار نے اپنی سلطنت کو محفوظ راستہ پہنچانے کے لئے کبھی افغانستان کے ارد گرد تو کبھی اسکے بیچ و بیچ عجیب و غریب لکیریں کھینچ کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ لایعنی اور حیران کن سرحدیں بیرونی طاقتوں کی اپنی مفاد کی خاطر ایجاد کردہ ہے۔ امیر عبد الرحمان کی دور حکومت ایک نئے باب کا آغاز تھا۔ افغانستان کے شمالی سرحد کی وضاحت یا پھر ڈیورنڈ لائن کا قیام ، دونوں نے خطے کی سیاست پر گہرے نقوش مرتب کیے۔

دوسری اینگلو افغان جنگ کے بعد افغانستان میں برطانوی حمایت یافتہ حکومت حرکت میں تھی۔برطانیہ بھی معاہدہ گندمک کے بعد خارجی امور کو سنبھالنے کے مزے لوٹ رہا تھا۔ دوسری اینگلو افغان جنگ کو ختم ہوئے ابھی چار سال کا عرصہ گزرگیا تھا کہ مارچ 1884 میں خبر دینے والے نے خبر پہنچا دی کہ روس ترکمانستان کے شہر مرو پر قبضہ کرچکے ہیں۔ یہ خبر برطانیہ پر بم بن کر گری کیونکہ شہر مرو افغانستان کے شمالی سرحد کے چندے قریب تھا اور یہ برطانیہ پر حملہ کرنے کا سب سے آسان راستہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ وجہ تھی کہ برطانیہ کو فکر لاحق ہوئی۔

اپنے اس خوف اور فکر کو کم کرنے کے لئے برطانیہ نے روس سے مزید پیش رفتی نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ دونوں قوتوں نے افغانستان اور روس کے درمیان نئے سرحد کی وضاحت کے لئے ایک کمیشن کے قیام کی منظوری بھی دے دی۔ کمیشن نے باضابطہ طور پر پہلی بار ملنا تھا کہ روس نے 1885 کو دریائے خشک کے کنارے افغان گیریژن پر حملہ کرکے 600 افغان سپاہیوں کو قتل کیا۔ اس ناخوشگوار واقعے کے بعد روس نے پنجدیہہ نخلستان پر قدم رکھیں۔ کچھ عرصہ تو روس اور برطانیہ کے درمیان جنگ کا سماں رہا مگر جلد ہی سرحدی معاہدے نے جنگ کے ان بادلوں کو قوی نہ ہونے دیا۔

سرحدی کمیشن نے شمالی فرنٹیئر آمودریا پر ایک مستقل سرحد کی وضاحت کی۔ اس معاہدے نے پنجدیہہ نخلستان کو روس کے نام کرتے ہوئے انہیں وہاں تک پابند کیا۔ کمیشن میں امیر افغانستان کی نمائندگی قاضی سعدالدین نے کی مگر یہ برائے نام تھی کیونکہ افغانیوں کو اس زمانے میں کم دخل اندازی کرنے دی جاتی تھی۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کا ایک خاص علاقہ ان سے الگ کردیا گیا مگر بعد میں برطانیہ نے متبادل کے طور پر واخان کو افغانستان میں شامل کیا۔ واخان افغانستان اور چینی سرحد کے درمیان ایک راہداری کے طور پر آج بھی موجود ہے۔ امیر افغانستان واخان سے قدرے مطمئن نہیں تھے مگر بطور تحفہ اسے قبول کرنے سے انکار نہیں کیا۔

ڈیورنڈ کی لکیر

برصغیر میں آزاد پختون ریاست کا مطالبہ کوئی ایک صدی پرانا ہے۔ انیسویں صدی میں جب برطانیہ نے پختون علاقے قبضہ کرنا شروع کیے، تو پختون ایک افغان قوم کے طور پر زندگی بسر کررہے تھے۔ برطانیہ کو ان علاقوں سے زبردست مزاحمت کا سامنا تھا۔ پختونوں کی اس مستقل اور پرتشدد مزاحمت کو کم کرنے کے لئے برطانیہ نے ہزاروں کی تعداد میں فوجی یہاں پر تعینات کیے۔ جب اس سے بھی یہ علاقے زیر اقتدار نہ آسکیں تو اس تاریخی لکیر کی ابتداء ڈال دی گئی جو آج افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد کے طور پر ڈیورنڈلائن کے نام سے موجود ہے ۔

1893 میں استعماری حکومت برطانوی ہند کے خارجہ سیکرٹری مورٹیمیر ڈیورنڈ نے امیر عبدالرحمان کی رضامندی سے یہ لکیر کھینچ دی۔ اس لکیر نے نہ صرف پختونوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا بلکہ عظیم افغانستان اور پختونستان کے نظریات کو بھی جنم دیا جو تادم ایں قائم ہے۔ پختون وجود کا ایک دھڑا لکیر کے اس پار برطانوی ہند میں جبکہ ایک افغانستان میں رہ گیا۔ اس کے بعد حالات کو مزید پیچیدہ اس دوسری لکیر نے کیا جو برطانیہ نے اپنے دائرہ اختیار میں موجود پختونوں کے درمیان کھینچ دی جہاں کسی نے خود کو صوبہ سرحد تو کسی نے صوبہ بلوچستان میں پایا۔

ڈیورنڈ لائن کی اگرچہ بعد کی سیاست پر گہرا اثر رہا ہے، مگر یہ برطانوی استعماری پالیسی "تقسیم کرو اور حکومت کرو"کی زندہ مثال ہے۔ اس پالیسی نے خطے میں دو بڑے مطالبوں کو جنم دیا۔ پہلے مطالبے کے سرخیل صوبہ سرحد کے خان عبدالغفار خان اور ان کے پیرو تھے۔ پختون قومیت کا نعرہ بلند کیے یہ پختونوں کے اتحاد کے خواہاں تھے ۔ وہ اتحاد جو برطانوی پالیسی سے قبل تھا۔ پختونستان کے اس مطالبے کے بعد دوسرا مطالبہ کابل میں یکے یعد دیگرے حکومتوں کا تھا۔ کابل کا موقف رہا ہے کہ یہ لکیر بین الاقوامی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اس وجہ سے آج بھی اس کو فرضی اور اس کا مٹنا عظیم افغانستان کی تکمیل کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ افغان قیادت 1893 میں ڈیورنڈ لائن پرراضی تھے مگر 1949 میں حکومت افغانستان نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ سرحد کے دونوں جانب قوم پرستوں نے پختونستان یا عظیم افغانستان کے لئے کوششیں کیں اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ لکیر رہی ہے۔ تاہم صوبہ سرحد کے لوگوں نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے تقسیم ہند کے وقت 99 فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں دیا تھا، مگر ڈیورنڈ لائن پر یہ تناؤبرابر جاری رہا ۔ 1955 کو پاکستان میں ون یونٹ فارمولے کے خلاف کابل میں زبردست احتجاج کیا گیا۔ پاکستان اور افغانستان نے اپنے نمائندے تک واپس بلا لیے تھے۔ بات سفارتخانے پر لوٹ مار تک پہنچ گئی تھی۔

اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ حمید الحق چوہدری نے کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بین الاقوامی سرحد ہے اور رہے گا۔ جبکہ 2006 میں خان عبدالغفار خان کے بھائی عبدالولی خان کی وفات پر سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اسے " نفرت کی لکیر" کہہ کر پکارا تھا۔

Comments

Click here to post a comment