ہم نے انیس سو تراسی میں نیا گھر بنایا تھا۔ پھر گاؤں میں گلیوں اور نالیوں کو اونچا کر دیا گیا۔ ہمارے گھر کا صحن گلیوں کی سطح سے نیچے ہو گیا تو صرف بارہ سال بعد انیس سو پچانوے میں مجھے گھر کی اونچائی کی خاطر نئے سرے سے گھر تعمیر کرنا پڑا۔
گاؤں کے کسی ایک شخص نے بھی میرے اس عمل پر اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ لوگ میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرکے کہتے رہے کہ آپ اچھا کر رہے ہیں۔ آپ کو گھر کےصحن کی سطح اونچی کرنی چاہئیے وگرنہ نالیوں کا گندہ پانی آپ کے صحن میں آ جائے گا۔ ہمارے گاؤں کی پرانی مسجد تقریباً ایک سو دس سال پہلے تعمیر کی گئی تھی۔ گاؤں کی آبادی بڑھنے کے ساتھ بڑی مسجد کی ضرورت تھی تو بڑی مسجد بنانے کی خاطر پرانی مسجد کو شہید کرنا پڑا۔ کسی بھی شخص نے اعتراض نہیں کیا کہ پرانی مسجد کو کیوں گرایا جا
رہا ہے۔ بلکہ لوگ خوش تھے اور تعاون کر رہے تھے کہ بڑی مسجد بن رہی ہے۔
اس طرح انسان کو اپنی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق پہلے والے پرانے رائج سسٹم کو ختم کرنا پڑتا ہے یا عارضی طور پر بند۔ کوئی ذی شعور شخص اس پر معترض نہیں ہوتا۔ مگر دنیا میں دین بیزار ایک ایسی جنس ہے جس کو ہر حال میں دین کے ہر کام کی مخالفت کرنا ہوتی ہے اور دیندار لوگوں کے کام میں کیڑے نکالنا انکا پیشہ ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ یہ ڈیوٹی دین اسلام کے دشمن عالمی استعمار نے ان کو سونپ رکھی ہے۔ جس کے بدلے ڈالرز اور پاؤنڈز میں بھاری تنخواہیں پاتے ہیں۔
یہ ایک عام فہم بات ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان میں بیس سالوں تک دنیا کے جمیع کفار نے امریکہ کی قیادت میں اودھم مچائے رکھا ہے۔ بیس سالوں تک افغانستان کا سارا نظام امریکن سسٹم ، امریکی ایجنٹوں حامد کرزئی اور اشرف غنی نے نافذ کر رکھا تھا۔ بیس سالوں تک ڈیزی کٹر اور مدَر آف بم کی کارپٹ بمبارمنٹ سے تباہ و برباد ہونے والے ملک افغانستان کو نئے سرے ے آباد کرنے اور امریکی سسٹم کے مقابل سو فیصد اسلامی نظام کے مطابق تیار کرنے کے لئیے طالبان کو بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ اس کے لئیے طالبان کو پہلے سے امریکی اسٹائل میں رائج سسٹم کو مسلمان بنانے کے لئیے کہیں مکمل سرجری کرنی پڑ رہی ہے۔ کہیں امریکن سسٹم کو جزوی طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ کہیں عارضی طور پر بند کرنا لازم ہے۔
اور کہیں اس سسٹم کا مکمل خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ امریکن سسٹم کے مطابق یونیورسٹی میں مخلوط نظام تعلیم رائج ہے۔ جو کہ سو فیصد غیر شرعی ہے۔ اس طرح لیڈیز یونیورسٹی کے لئیے فیمیل اساتذہ درکار ہیں۔ دور دراز سے آنے والی طالبات کے لئیے شرعی تقاضوں کے مطابق رہائش کا بندوبست کرنے کے لئیے وقت چاہئیے۔ بیس سالوں تک امریکہ کی لگاتار بمبارمنٹ سے تباہ و برباد افغانستان کو دوبارہ آباد کرنے کے لئیے طالبان کو کس قدر گھمبیر مسائل کا سامنا ہے ، یہ وہی جانتے ہیں۔ باہر بیٹھ کر کیڑے نکال کر ڈالر کمانا بہت آسان اور آرام دہ پیشہ ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ 2005 کے زلزلہ سے متاثرین آج بھی کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔ انکے بچے آج بھی اسکول سے محروم ہیں۔ حالیہ سیلاب سے متاثرین کی کہانی سناتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہمارے لبرلز اور اپنے آپ کو جدید اسلام کے پجاری کہلانے والا غامدی صاحب کی جماعت کے پاکستان میں سربراہ خورشید ندیم صاحب پاکستان کے ان دکھ بھرے داخلی مسائل پر بات نہیں کرتے ہیں۔ دیوبندی مکتبۂ فکر کی دشمنی میں طالبان پر اعتراض کر رہے ہیں کہ طالبان عورتوں کو تعلیم سے محروم کر رہے ہیں۔ جبکہ پوری سچائی یہ ہے کہ طالبان عورتوں کی تعلیم کو فرض عین سمجھتے ہیں۔ امریکن تعلیمی نظام کو اسلامی نظام کے مطابق ڈھالنے اور فیمیل یونیورسٹیز کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے لئیے عارضی طور پر بند کیا ہے۔
یعنی جس طرح سڑک یا گلی کی تعمیر نو کے لئیے عارضی طور پر بند کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹیز کو عارضی طور پر بند کیا گیا ہے۔ تباہ حال امارت اسلامیہ افغانستان میں طالبان حکومت کے یہ اقدام طالبان کے نزدیک تعلیم نسواں کی اہمیت کا پتہ دیتے ہیں کہ
افغانستان میں بیس سالہ بربادی کے بعد جہاں پینے کے پانی کا بندوبست نہیں ہے۔ خوراک کی شدید کمی ہے ، علاج کے لئیے ہسپتال اور ادویات میسر نہیں ہیں۔ ان کمزور ترین حالات میں بھی طالبان عورتوں کی تعلیم کے لئیے فیمیل یونیورسٹیز کے اجراء اور انکی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہیں۔
اور ہمارے ہاں لبرل اور غامدی جماعت اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کی بجائے طالبان کے اعلی و ارفع کاموں میں کیڑے نکال میں مصروف ہیں۔ طالبان کا ازلی دشمن شیطان قیامت تک تخریب کاری میں مصروف رہے گا اور اپنے چیلوں کو بھی ان کاموں میں مصروف رکھے گا۔
تبصرہ لکھیے