ہوم << کھستے ہی رہو آگے مگر بیٹھے رہو بیٹا - حبیب الرحمن

کھستے ہی رہو آگے مگر بیٹھے رہو بیٹا - حبیب الرحمن

لگتا ہے کہ "کوئی" شدید ذہنی کا شکار ہے۔ مالیخولیا کیسی بیماری ہے، اس کے بارے میں میں جناب وسعت اللہ خاں صاحب کی تحقیق آپ سب کے سامنے ضرور پیش کرنا چاہوں گا۔

وہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ "میں سیاست پر لکھتے لکھتے تنگ آ چکا ہوں ۔چنانچہ اب میں کبھی کبھی کسی ایسے موضوع پر لکھنے کی کوشش کروں گا جس سے کچھ نہ کچھ آگہی بڑھے۔ میری بھی اور آپ کی بھی۔ چند دنوں سے میں پیرونایا پر طرح طرح کی تحقیق پڑھنے میں لگا ہوا تھا۔اس کا کچا پکا ماحصل پیشِ خدمت ہے۔ پیرونایا کو آپ اردو میں ذہنی خلجان، خفقان، انتشارِ ذہنی، فتورِ یا ذہنی مالیخولیا کہہ سکتے ہیں۔ یعنی وہ شدید ذہنی بے چینی جس کا ابتدا میں تدارک نہ ہو تو بڑھتے بڑھتے پیرونایا کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا انسان کو اکثر محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی اسے گھیرنے، مارنے یا کونے سے لگانے کی سازش، کوشش یا منصوبہ بنا رہا ہے۔ گنے چنے لوگ ہی اس کا اچھا سوچتے ہیں اور اکثریت اس کی دشمن ہے۔

جو کوئی بھی مریض کے خدشات کم کرنے کے لیے عقلی دلائل و منطق و سائنسی ثبوتوں کا سہارا لے، اسے بھی مالیخولیا کا شکار اپنے دشمنوں کی طویل فہرست میں شامل کر لیتا ہے۔ اگر اس ذہنی کیفیت کا بروقت علاج نہ ہو تو یہ بڑھتے بڑھتے شیزوفزینیا اور پھر ایلزائمر میں بدل سکتی ہے۔ مالیخولیاؤں کے نزدیک ان کا شک ہی سب سے بڑی دلیل اور سچائی ہے۔ ان کو راسخ یقین ہوتا ہے کہ جو سازش یا منصوبہ یا کوشش بظاہر دکھائی نہیں دے رہی وہ اس سازش سے زیادہ خطرناک ہے جو دکھائی دے رہی ہے"۔ یہاں سے آگے ذہنی مالیخولیا جیسی بیماری کے بارے میں کچھ معلومات جو سینہ بسینہ چلتی ہوئی مجھ تک بھی آئی ہیں ان کو بھی میں آپ تک پہنچا دوں تو یہ بھی یقیناً ایک کارِ ثواب ہی ہو گا۔

اس بیماری کے شکار مریضوں کی یہ کیفیت بھی ہو جاتی ہے کہ اپنی کوئی خواہش آپ کے سامنے رکھتے ہیں، اگر آپ نے خواہش کی تکمیل ان کی مرضی و منشا کے مطابق خوش اصلوبی سے سر انجام دیدی تو وہ فوراً ایک نارمل انسان نظر آنے لگتے ہیں لیکن ذرہ برابر بھی خلافِ مزاج بات ہوئی تو ایسے مریض جنون کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کیفیت میں اگر وہ آپ کا نقصان کرنے میں ناکام ہو جائیں تو خود اپنے آپ کو کوئی بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں اس لئے ان کے لوحقین ان کو نارمل انسان رکھنے کیلئے ہردم ان کے آگے ہاتھ جوڑے اُس جن کی طرح کھڑے رہتے ہیں جو "کیا حکم ہے میرے آقا" کا نعرہ لگا کر ہر دم ہر خواہش پوری کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔

ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ایک خواہش کی تکمیل کے بعد وہ جلد ہی اپنی دوسری خواہش رکھ دیتا ہے اور اس کے ساتھ بھی آپ کو وہی سب کچھ کرنا پڑتا ہے یا پھر تباہی و بربادی کیلئے تیار ہو جانا پڑتا ہے۔ مختصر یہ کہ ایسے مریض کی خواہشات اس حد تک پڑھ جاتی ہیں کہ لواحقین کی زندگی عذاب بن جاتی ہے اور پھر آخری درجہ یہ آتا ہے کہ اسے پاگل خانے کی کوٹھڑی کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنا ہی پڑ جاتا ہے۔

پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے وہ اسی قسم کے حالات ہیں۔ "کوئی" ہے جو وسعت اللہ خان کی تحقیق اور میری سینہ بسینہ معلومات کی تشہیر بنا ہوا ہے۔ ہر جانب اسے سازشوں کے جال ہی جال نظر آ رہے ہیں۔ ہر شکل اسے منافقوں والی نظر آ رہی ہے۔ اپنوں اور پرایوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ کبھی اسے سیاسی جماعتوں کی شکل میں عفریت نظر آیا کرتے تھے تو خاکی وردیوں کی آڑ میں پناہ ڈھونڈ کر ایک نارمل انسان بن جایا کرتا تھا لیکن جب مرض نے شدت اختیار کی تو اب اسے خاکی وردیوں کی آستینوں میں سانپ بچھو نظر آنے لگے ہیں اور عالم یہ ہے کہ اسے مٹر کے دانے بھی گن مشینوں کی گولیوں جیسے دکھائی دینے لگے ہیں۔

ذہنی کیفیت کا عالم یہ ہے کہ اسے چار چار گن مشینوں کی گولیاں بغیر لباس میں سوراخ کئے اپنے دوستوں کے لباسوں کے اندر سے برآمد ہوتی دکھائی دینے لگی ہیں۔ جب مرض ابتدائی درجے میں تھا تو اس کی فرمائش تخت و تاج تک محدود تھی جس کے لئے بقولِ خود وہ کہا کرتا تھا کہ تختِ پر بیٹھنے کیلئے اسی جو بھی کرنا پڑا، اپنے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کرکے بھی وہ کر گزرے گا۔ "کوئی" کی بات کو "ہر کوئی" تو پورا کر نہیں سکتا تھا، لاڈ سے پر ورش کرنے والوں نے سوچا کہ شاید اسی طرح یہ ایک نارمل انسان بن جائے لیکن لگتا ہے کہ "مالیخولیا" کے متعلق ان کی اپنی معلومات بھی محدود ہی تھیں ورنہ وہ پہلی ہی فرمائش کے بعد اسے وہیں پہنچا دیتے جہاں اب پہنچانا لازمی ہوتا جا رہا ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ جس "جن" نے ان کی پہلی فرمائش پوری کی تھی وہ خود پچاس دھائیوں سے "مالیخولیا" کی بیماری کا شکار ہے۔ اس کی اپنی سمجھ کے مطابق پاکستان کے جتنے بھی سویلین حکمران ہیں وہ سب عقل و سمجھ میں ان سے کم ہیں۔ لہٰذا تختہ اقتدار پر ان ہی کو بیٹھے رہنا ضروری ہے۔ ان کو ہر جانب حالات خراب نظر آتے ہیں، ہر مرتبہ حالات اس بات کی اجازت نہیں دے رہے ہوتے کہ کوئی اور ان پر بر تری حاصل کرے اور ملک کی تقدیر بدلنے کی کوشش کرے۔ مزے کی بات یہ ہے جس جس کو بھی وہ خود اپنے ہاتھوں تخت پر بٹھاتے ہیں اس کے تخت کا تختہ اپنے ہی ہاتھوں سے کر دیتے ہیں کیونکہ مالیخولیا کی بیماری ان کو سمجھا رہی ہوتی ہے کہ ہر جانب ان کے دشمن ہیں اور ان کی آڑ میں ریاست اور وردی کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔

ایک بے دست و پا کو تو پکڑ کر پاگل خانے کی کال کوٹھڑی کی سلاخوں کی پیچھے پہنچایا جا سکتا ہے لیکن جس کا دماغ بالکل ہی آؤٹ ہو چکا ہو اور وہ طاقت کا ہمالیہ بھی ہو تو کوئی پاگل ہی ہوگا جو اس کے مقابلے پر آئے لہٰذا ایسے موقع پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ

سناہے ہم نے دنیا چاند کی دھرتی پہ بستی ہے

تم اپنی ریت کی دیوار پر بیٹھے رہو بیٹا

گھستے ہی رہو آگے مگر بیٹھے رہو بیٹا